مدینے میں کہاں اٹھتی ہے سجدسے نظر میری- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
مدینے کے سفر میں عاجزی ہے ہمسفر میری
مرے سر پر رہے یارب! ردائے بے ہنر میری
گدازِ نقشِ پائے مصطفیٰؐ کی آرزو لے کر
بچھی رہتی ہے اُنؐ کے راستوں میں چشمِ تر میری
مجھے مدحت نگاری پر مقرر اے خدا! رکھنا
بیاضِ لب کشا میں شاعری ہے جلوہ گر میری
تھکن کا کب مجھے احساس ہوتا ہے مدینے میں
بھری رہتی ہے پھولوں سے ہمیشہ رہگذر میری
ستارے میری قسمت کے کریں گے رقص آنگن میں
سند لائے گا طیبہ سے کسی دن نامہ بر میری
اسے کمخواب کے دلکش لبادے میں چھپا رکھو
بڑی ہی قیمتی بچو، یہ ہے گردِ سفر میری
خیال اتنا رہے جھوٹی اَنا کے ہر پجاری کو
مدینے میں پہنچ جاتی ہے لمحوں میں خبر میری
میں بد قسمت ہوں سب دیوار و در دیکھے نہیں میں نے
مدینے میں کہاں اٹھتی ہے سجدے سے نظر میری
مری پہچان زنجیرِ غلامی کے سوا کیا ہے
حروفِ نعت سے کلکِ ادب ہے معتبر میری
مجھے ربِّ محمد کی قسم، اُنؐ کے تصدّق میں
خزاں کے زرد موسم میں ہیں شاخیں باثمر میری
مرا مکتب بفیضِ نعت ہے زمزم محبت کا
کتابِ دیدہ و دل ہے کلاہِ حرفِ زر میری
ہوائے شہرِ طیبہ دستکیں دے گی محبت سے
کھلی رہتی ہیں گھر کی کھڑکیاں شام و سحر میری
منافق ساعتوں نے گھیر رکھا ہے دل و جاں کو
یقیناً اس لئے ہیں التجائیں بے اثر میری
تمہارے ہاتھ پر بھی پھول رکھوں گا مدینے کے
کئی موسم نئے اترے ہوئے ہیں شاخ پر مری
ریاضؔ اِس خوش نصیبی پر خدا کا شکر واجب ہے
دعاؤں کے ہے جھرمٹ میں حیاتِ مختصر میری