ڈھونڈتے ہو افق پر مگر ہمسفر! روشنی ہے خیابان اصحابؓ میں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
مَیں اندھیروں سے خائف نہیں اس لئے، مَیں ازل ہی سے ہوں
شہرِ زرتاب میں
جاگتے میں بھی مَیں اُنؐ کے قدموں میں ہوں، خلدِ طیبہ کی گلیاں ہیں ہر خواب میں
اک فضائے تیّقن دعاؤں میں ہے، گردِ تشکیک کب ان ہواؤں میں
ہے
نغمۂ عشق گھر کی فضاؤں میں ہے، عشق ہی عشق ہے دل کے مضراب میں
رو رہا ہوں درِ پاک پر یانبیؐ! عین ممکن ہے ہو آخری حاضری
ہچکیاں سسکیاں میری سانسوں میں ہیں اور قلم آنسوؤں کے ہے سیلاب میں
صبحِ میلادِ خیرالبشرؐ مرحبا، مرحبا، مرحبا، سیدّی مرحبا!
خوشبوئیں ریشمی پیرہن میں سجیں، آرزوئیں سمٹ جائیں کمخواب میں
ابرِ رحمت میں لپٹا ہوا ہے قلم، ہے ہواؤں میں روشن چراغِ
حرم
آرزو بندگی کی ہے میرے خدا، اب مصلّے بچھیں دل کی محراب میں
ہر ورق پر محامد ہیں سرکار کے، تختیوں پر محاسن پیمبرؐ کے ہیں
روشنی مکتبِ جاں میں ہے پَرفشاں، نور ہی نور ہے لفظِ احزاب میں
چشمِ تر اپنی پلکیں بچھانے لگی، روشنی میز پر سر جھکانے
لگی
پھر قلم چاند تاروں کے جھرمٹ میں ہے، پھر ورق ہے پر و بالِ سُرخاب میں
اُنؐ کے نقشِ قدم کو تلاشا کرو، وجد میں آ کے طیبہ میں جھوما
کرو
ڈھونڈتے ہو افق پر مگر ہمسفر! روشنی ہے خیابانِ اصحاب میں
میرے سامان میں خاکِ انور بھی ہے، اُس کو رکھ لینا میری
لحد کے لئے
جو کھجوریں میں لایا ہوں وہ سب کی سب بانٹ دینا ابھی میرے احباب میں
دل کی ہر ایک دھڑکن چراغاں کرے، میری ہر سانس شمعِ فروزاں
بنے
آنکھ جھک کر ثنا اُنؐ کی کرتی رہے، یہ بھی شامل ہے طیبہ کے آداب میں
جب کروں گا میں ذکرِ حبیبِ خدا، جب زباں ہو گی محفل میں
محوِ ثنا
روشنی چاند بانٹے گی چاروں طرف، پھول مہکیں گے ہر شہرِ شاداب میں
مطمٔن ہوں ریاضِؔ سخن مَیں کہ جب ہر بیاضِ ثنا میری کھولی
گئی
جو بھی لکھے تھے چشمِ ادب نے وہ سب لفظ زندہ ہیں مدحت کے ابواب میں