مدینے سے اٹھا لائیں چراغِ نقش پا آنکھیں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
چنابِ لب کشا آنکھیں، حروفِ التجا آنکھیں
مصلّے پر ہمیشہ سے ہیں مصروفِ ثنا آنکھیں
غلامی کا وثیقہ اشک لکھیں گے مدینے میں
کریں گی روشنی تحریر میری دلربا آنکھیں
قیامِ دائمی کا ہو اقامہ اے خدا! حاصل
درِ آقاؐ سے محشر تک نہ ہوں ہر گز جدا آنکھیں
ہمیشہ چاند تاروں کو بچھائیں اُنؐ کی راہوں میں
ہمیشہ ہی پڑھیں میری، درودِ مصطفیٰؐ، آنکھیں
تڑپتی ہیں، چھلکتی ہیں، تسلسل سے برستی ہیں
کبھی طیبہ میں لے جانا مری بادِ صبا! آنکھیں
خدائے بحر و بر یہ التجا ہے ایک شاعر کی
درِ سرکار پر بھیگی رہیں میری سدا آنکھیں
بھرم رکھتی ہیں میری بے نوائی کا پسِ مژگاں
مواجھے میں نمازِ عشق کرتی ہیں ادا آنکھیں
ہوائے شہرِ طیبہ سے ملا کر ہاتھ آئی ہیں
سراپا عجز کے پیکر میں ہیں حرفِ دعا آنکھیں
کسی جگنو کے آگے ہاتھ پھیلانا نہیں آتا
مدینے سے اٹھا لائیں چراغِ نقشِ پا آنکھیں
مسلسل اپنے اشکوں سے جو نعتِ مصطفیٰؐ لکھیں
انہی عشّاق کو دیتا ہے بس میرا خدا آنکھیں
میں اُن امواجِ سرکش کو کہاں خاطر میں لاتا ہوں
مری کاغذ کی کشتی کی یہی ہیں ناخدا آنکھیں
کبھی قدموں کو چومیں گی کبھی محفل میں جھومیں گی
غلامی کی کریں گی روزِ محشر انتہا آنکھیں
بیاضِ نعت کے ہر ہر ورق پر اپنے اشکوں سے
بناتی ہیں بڑی دلکش مدینے کی فضا آنکھیں
مری تشنہ لبی کا عین ممکن ہے مداوا ہو
زمینِ دیدہ و دل پر رکھے کالی گھٹا آنکھیں
بتاتی ہیں مجھے احوال طیبہ کے مکینوں کا
لپٹ جائیں مری کلکِ ثنا سے خوشنما آنکھیں
جوارِ گنبدِ خضرا کی اِن میں روشنی بھر دے
ریاضِؔ خوشنوا کو تو نے کی ہیں جب عطا آنکھیں