خلدِ طیبہ کے ملے ہیں رتجگے، آہستہ چل- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
گنبدِ خضرا ہے تیرے سامنے، آہستہ چل
طے ہوئے ہیں شوق کے کب مرحلے، آہستہ چل
زیرِ لب خوشبو درودوں کی رکھیں لوح و قلم
لفظ چشمِ تر میں ہوں بھیگے ہوئے، آہستہ چل
کب زیادہ دور ہیں شہرِ پیمبرؐ کی حدود
خود بخود لاکھوں دیے جلنے لگے، آہستہ چل
وہ سنہری جالیاں ہیں روضۂ سرکارؐ کی
آزمائے جا رہے ہیں حوصلے، آہستہ چل
سانس بھی آہستہ لے توُ آپؐ کے دربار میں
ہر طرف انوار کے ہیں سلسلے، آہستہ چل
آنسوؤں نے گھیر رکھا ہے، دبستانِ ثنا
شاخِ دل پر پھول مدحت کے کھلے، آہستہ چل
ہوش میں رہ، بے خبر، یہ کوچۂ سرکارؐ ہے
جانتے ہیں سب تجھے بھی راستے، آہستہ چل
ہاتھ سے تکریم کی کلیاں نہ گر جائیں کہیں
جو قدم اٹھے ادب ہی سے اٹھے، آہستہ چل
تیری قسمت کی بلائیں چاند راتیں کیوں نہ لیں
خلدِ طیبہ کے ملے ہیں رتجگے، آہستہ چل
سائباں اُنؐ کے کرم کا ہو مبارک، ہمسفر!
دھوپ شدت کی ہے تُو سورج تلے، آہستہ چل
چل رہی ہیں آندھیاں تہذیبِ نو کی ہر طرف
راستوں کے سب دیئے بجھنے لگے، آہستہ چل
مشورے اہل قلم دیتے رہے شام و سحر
کون لکھے گا سخن کے حاشیئے، آہستہ چل
اپنی ہر لغزش پہ نادم ہوں ریاضِؔ خستہ جاں
چشمِ تر سے اشکِ تر گرتے رہے، آہستہ چل