لب پر حروفِ بابِ غلامی سجے رہیں- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
میری ہتھیلیوں پہ ستارے بچھے رہیں
یارب! چراغ شہرِ ثنا میں جلے رہیں
دیوار و در حضورؐ پر پڑھتے رہیں درود
آنسو جہاں کھڑے ہیں کھڑے کے کھڑے رہیں
اگتے رہیں زمینِ غزل سے نئے حروف
مدحت کی وادیوں میں گلِ تر کِھلے رہیں
ہر شب مجھے نصیب ہو طیبہ کی حاضری
ارض و سما بھی ساتھ مرے جھومتے رہیں
تشنہ لبی کا خوف کسے ہو گا حشر میں
نطق و بیاں بھی ہاتھ مرے چومتے رہیں
نسلیں تلاشِ نقشِ قدم میں رہیں، حضورؐ
بچے مرے بھی آپؐ کے در پر پڑے رہیں
جب نام اپنا بھول میں جاؤں تو یانبیؐ
لب پر حروفِ بابِ غلامی سجے رہیں
آنسو ندامتوں کے رہیں سامنے، حضورؐ
ہم خوش نصیب شام و سحر بھیگتے رہیں
محشر کے روز نامۂ اعمال جب کھلے
اوراقِ نعتِ مرسلِ آخرؐ سجے رہیں
ہم کیا ہماری جھوٹی انائیں بھی کیا، حضورؐ
ہم بے نوائے شہرِ قلم سوچتے رہیں
ایسا کرے خدائے محمدؐ بروزِ حشر
خود سے ریاضؔ اپنا پتہ پوچھتے رہیں