مری مدحت نگاری کا قلم دستِ صبا میں تھا- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
اگرچہ جسم زخموں کی ردائے ناروا میں تھا
سخن پھر بھی تسلسل کے حروفِ خوشنما میں تھا
چمن کی خوشبوؤں کے سائباں میں تھا مرا آنگن
مری مدحت نگاری کا قلم دستِ صبا میں تھا
اِسے آقائے رحمتؐ کے کرم کی انتہا لکھوں
مدینے کا خنک موسم مرے گھر کی فضا میں تھا
وفورِ نعت کی کرنیں مرے ہر شعر میں اتریں
تمناؤں کا اک لشکر نوائے بے نوا میں تھا
حیاتِ مختصر اُنؐ کی غلامی میں گذاری تھی
دمِ آخر سخن میرا مسلسل ارتقا میں تھا
دعائیں ہاتھ خالی لوٹ آئیں کس طرح، ہمدم؟
وسیلہ آپؐ کی رحمت کا میری ہر دعا میں تھا
مکمل نعت کر لی تو ہوا محسوس یہ مجھ کو
درودِ مصطفیٰؐ ہر لفظ کے غارِ حرا میں تھا
حضوری میں مری بھی حاضری تبدیل ہو جائے
چراغِ آرزو روشن کلامِ لب کشا میں تھا
ریاضؔ اب کے برس لے کر بیاضِ نعت ہاتھوں میں
تصور کا پرندہ وسعتِ ارض و سما میں تھا