اظہاریہ: نصاب زندگی (محمد حسنین مدثر)- تاجِ مدینہ (2017)
زندگی کے آخری ایام میں والد گرامی ریاض حسین چودھری رحمتہ اللہ علیہ اپنے غیرمطبوعہ کلام کے بارے میں بہت تشویش رکھتے تھے۔ اس حوالے سے اپنے قریبی دوست شیخ عبدالعزیزدباغ صاحب سے وہ اکثر رابطے میں رہتے اور اپنی غیرمطبوعہ کتابوں کی اشاعت کے لئے کہتے رہتے۔ وہ بھی انہیں بھرپور تسلی دیتے۔ مجھے ابو جان نے آخری بار ہسپتال جانے سے پہلے تاکید فرمائی تھی کہ یہ کلام ان کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے جس کی اشاعت کے لئے صرف عبدالعزیز صاحب ہی کو مسوّدات دینا۔ آپ کی وفات کے بعدجب شیخ عبدالعزیزدباغ صاحب نے مجھ سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو میں کچھ وقت نکال کر چودھری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی غیرمطبوعہ تخلیقات کو دیکھنے لگا۔
جب حیات تھے تو اُن کی تخلیقی کیفیات کے حوالے سے ہم اُن سے کوئی استفسار نہیں کرپاتے تھے مگر مسودات دیکھنے لگا توان کے تخلیقی کرب کی کیفیتیں یاد آنے لگتیں اور آنکھیں نم رہتیں۔ ویسے تو ان مسودات کو دیکھتے ہی آنکھیں برسنے لگتیں اور شیخ دباغ صاحب نے بھی سب سے پہلے ’’برستی آنکھو خیال رکھنا ‘‘ کی طباعت کا فیصلہ کیا جو کہ الحمدللہ اب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے۔ ’’تاجِ مدینہ‘‘ کا مسودہ دیکھا تو نام دیکھتے ہی تجسس ہوا کہ والد گرامی کی سابقہ کتابوں سے منفرد یہ نام یقینا ان کا منفرد کلام ہو گا۔ فہرست دیکھی تو ردیف ’’تاج مدینہ ہے‘‘ پر نظر پڑی جسے میں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ 18 اشعار کی اس نعت کو بار بار پڑھا اور ہر بار اسے پڑھنے اور سمجھنے میں نیا سرور ملا۔ بالخصوص درج ذیل شعر کا مضمون تاج مدینہ کے معنی و مفہوم کے ادراک میں مددگار ثابت ہوا۔
رقم تفصیل سے اس میں نصابِ زندگانی ہے
اسے کھولو، کتابِ ارتقا تاجِ مدینہ ہے
یوں تو ساری کائنات تاج مدینہ کے اختیار و رسوخ کے تحت ’’ہرلحظہ ہے تازہ شانِ وجود‘‘ کے مصداق صدائے کن فیکون پر لبیک کہہ رہی ہے لیکن ’’نصابِ زندگانی کی کتاب ارتقا‘‘ کی ترکیب اپنے اندر فکر و عمل کے لئے زمین و آسمان، نئے شمس و قمر، نئے شب و روز اور نئی حیاتِ دنیا و آخرت کا سامان لئے ہوئے ہے۔ جیسے جیسے اس نعتیہ مجموعے کا مطالعہ کرتا گیا یہ احساس تیز تر ہوتا گیا کہ یہی کتاب ’’تاج مدینہ‘‘ در اصل نصابِ زندگانی ہی کی کتابِ ارتقا ہے کیونکہ اس کے مضامین، شعری زمین، وسائلِ اظہار اور پیرایۂ کلام اپنے اندر ندرت و انفرادیت کا بحرِ مواج لئے ہوئے ہے۔ یوں تو محبت کا گداز، روح کی وجدانی کیفیت اور حضوری کی نورانی لذت چودھری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی نعت کے امتیازی خواص ہیں مگر ’’تاج مدینہ‘‘ میں جو چیز باقی مجموعہ ہائے کلام سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے وہ اُن کے فکر و فلسفہ کی صبحِ بہار ہے جو نئے اور تازہ گلہائے رنگ رنگ کی عطر بیزیوں سے مہک رہی ہے۔ خدائے واحد کی رضا کی طلب و اشتہا بندہِ مومن کا سرمایۂ ایمان تو ہے ہی لیکن چودھری صاحب مرحوم اسے بھی تاجِ مدینہ ہی قرار دیتے ہیں۔
طلب گارِ مدینہ تھا، طلب گارِ مدینہ ہوں
خدائے آسماں تیری رضا تاجِ مدینہ ہے
رضا سے آگے تاجِ مدینہ اُس جہانِ کرم کو محیط ہے جس کی پہلی کرن جبلِ نور پر خلوتِ پیغمبر ﷺ سے پھوٹی تھی اور جس کی ابتداء ’’مکے کے موسم‘‘ سے ہوئی تھی اور جس کی انتہا مدینہ میں سجی ہوئی بارگاہِ رسالت ہے۔ جہاں ملائکہ اور عشاّقانِ رسول درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ کرم کے اس سلسلے کی ابتدا ’’مکہ‘‘ ہے ’’مکہ کا موسم‘‘ ایک ایسی تلمیحی ترکیب ہے جس میں دین اسلام کے مکہ میں طلوع اور دعوتِ حق کے جبرو صبر اور استقامت کی ہوش ربا داستان مضمر ہے۔ ’’سلسلوں‘‘ کا لفظ بھی دورِ نبوت کی پوری تاریخ کو محیط ہے اور ’’کرم کی انتہا‘‘ کا مفہوم وہ سلطنتِ اسلامیہ ہے جس نے جہالت کی ظلمتوں کو نورِ ہدایت کے جہانِ صلاح و فلاح میں بدل دیا ہے۔
کرم کے سلسلوں کی ابتداء مکہ کا موسم ہے
کرم کے سلسلوں کی انتہا تاجِ مدینہ ہے
تاجِ مدینہ کی عرش و کرسی ارض و سما کو محیط ہے۔ یہ ایک خلد بریں کا نام ہے جس کا شعور غلامیٔ رسول میں پنہاں ہے۔
مدینے کی زمیں پر ان گنت سجدوں کے سورج ہیں
شعورِ بندگی کا سلسلہ تاج مدینہ ہے
یہاں خلد بریں کی خوشبوؤں کا رقص جاری ہے
محیطِ موسم ارض و سما کا تاج مدینہ ہے
’’تاجِ مدینہ‘‘ریاض حسین چودھری صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی مدحت نگاری کا ایک منفرد باب ہے۔ انفرادیت تو ان کے ہر مجموعہ کلام کا خاصہ ہے مگر اس انفرادیت کا احساس اس مجموعے میں بہت نمایاں ہے۔ 1995 میں شائع ہونے والے ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’زرِ معتبر‘‘ میں بھی ان کا لب و لہجہ منفرد تھا۔
بوقتِ نعت گوئی حال ہوتا ہے عجب میرا
پرِ جبریل بن جاتا ہے ہر حرفِ طلب میرا
گلابِ اسمِ احمد کیا کھلا شاخِ دل و جاں پر
چمن میں تذکرہ رہنے لگا ہے روز و شب میرا
کورے کاغذ پہ نئے لفظ کا پیکر جاگے
چشمِ بیدار میں اشکوں کا سمندر جاگے
اور آج 2019 میں بعد از وصال شائع ہونے والے سترھویں مجموعہ میں ان کے احساسِ انفرادیت کا اظہار ملاحظہ فرمائیں۔
خود تلاشوں اپنے موسم خود لکھوں اپنے گلاب
دے مرے لوح و قلم کو سب سے بال و پر جدا
رنگ دامان سخن کا مختلف ہے آج بھی
ہے تغزل کا تشخص بھی مرے اندر جدا
پھر اس انفرادیت کے حوالے سے انہوں نے ’’منفرد‘‘ کی زمین میں نئے نئے مضامین نکالے ہیں۔ یہ صرف چودھری صاحب رحمتہ اللہ علیہ ہی کر سکتے تھے۔
سانسوں کا کیا ہے وہ تو چلیں گی نفس نفس
لیکن فضائے نعت میں جینا ہے منفرد
جن پر گلابِ نعت کھلیں لب وہی عظیم
نعتِ نبی ﷺ ہے جس میں وہ سینہ ہے منفرد
اس منفرد اور مبارکہ سینے کے حامل ریاض حسین چودھری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اس مجموعہ کلام میں اپنی وہ تخلیقات بھی شامل کی ہیں جو انہوں نے حرمِ کعبہ، اور وہاں سے بارگاہِ نبوی کے لئے روانگی کے وقت اور درِ رسول ﷺ پر حاضری کے بعد کی کیفیات کی خوشبوؤں کو سمیٹتے ہوئے لکھیں۔ ایسے اشعار نے ان کے تاجِ مدینہ کے مجموعے کو نیا رنگ و آہنگ عطا کیا ہے۔ مدینہ منورہ روانگی سے قبل ایک روز قبل مکہ معظمہ میں لکھتے ہیں:
طیبہ کے آرہا ہوں چمن زار میں حضور ﷺ
مہکوں گا خوب دامنِ گلزار میں حضور ﷺ
مکے کی سر زمین کو چوما ہے بارہا
کھویا رہا ہوں سرمدی انوار میں حضور ﷺ
چلتا رہوں میں آپ ﷺ کی جانب تمام عمر
لغزش کہیں نہ آ سکے رفتار میں حضور ﷺ
پھر 27 رمضان المبارک کو مسجد نبوی کے پہلے دالان میں گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی چھاؤں میں افطار سے قبل لکھتے ہیں۔
جھولی مری سرکار نے پھولوں سے بھری ہے
میں خندہ نظر، خندہ سخن، خندہ جبیں ہوں
آقا جی کرم اور کرم اور کرم ہو
میں حرفِ ادب، حرفِ ثنا، حرفِ یقیں ہوں
پھر مدینہ پاک سے وطن واپسی پر لکھتے ہیں:
معلوم نہیں کب سے میرا قلبِ مصوّر
طیبہ کے مکینوں کے قدم چوم رہا ہے
صد شکر ریاض اپنے مقدّر پہ کرو تم
اندر کا ابھی شخص مدینے میں کھڑا ہے
اپنے پیرایۂ اظہار کے بارے تاج مدینہ میں وہ غزل نگاری کی جگہ مدحت نگاری کو سوچ کی ہجرت قرار دیتے ہیں
کرتا رہا غزل سے جو میں نعت تک سفر
ملک سخن سے سوچ کی ہجرت یہی تو ہے
ریاض حسین چودھری رحمتہ اللہ علیہ کے حسنِ تغزل کی تجلی ان کے نعتیہ کلام کا اثاثہ ہے۔ اس پہلو کو انہوں نے ـ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ میں بطور خاص موضوع بنایا ہے اور بعد میں بھی اکثر لکھتے لکھتے وہ اس مضمون کو نئے انداز اور نئے لب و لہجہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ’’ تاج مدینہ‘‘ میں بھی انہیں اپنے اسلوبِ نعت کی ندرت کا احساس جگہ جگہ اظہار مانگتا نظر آیا ہے۔ دراصل ریاض حسین چودھری صاحب رحمتہ اللہ علیہ یقینا رسول محتشم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک منفرد مدحت نگارہیں۔ انہیں اس ذوق نے کاملاً سمیٹ رکھا ہے۔ وہ ذہنی اور روحانی طور پر عالم برزخ میں بھی خود کو نعت نگاری میں مصروف پاتے ہیں اور روز محشر بھی انہیں اسی منصب کے حوالے سے بلائے جانے کا یقین ہے۔
میری تجوریوں میں خزینہ ہے منفرد
اسلوبِ نعتِ شاہ مدینہ ہے منفرد
سر محشر شفاعت کے کھلیں جب ریشمی پرچم
ترے مدحت نگاروں کی وہاں دھومیں مچیں آقا ﷺ
سورج سوا نیزے پر بڑے شوق سے چمکے
محشر میں مجھے کافی ہے دستارِ مدینہ
کس نے ابھی ابھی لیا محشر میں میرا نام
کیا مجھ سا بے ہنر بھی ہے آیا شمار میں
رب کریم اپنے محبوب ﷺ کے اِس ہنر مند شاعر جس کے ہاتھوں میں اُس نے روزِ الست ہی نورِ مدحت نگاری رکھ دیا تھا کی قبر کو اپنے انوار رضا سے منوررکھے، اُن کی لحد میں صلِّ علیٰ کا موسم برپا رہے اور روز محشر انہیں بے حساب اس جنت میں داخل فرما دے جس کے متعلق وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ’’تاج مدینہ‘‘ کے سرورق پر یہ شعر لکھ گئے۔
میں اکثر سوچتا رہتا ہوں اے کونین کے مالک
تری جنت مدینے سے کہاں تک مختلف ہو گی
محمد حسنین مدثّر