کشکولِ جان و دل میں زرِ رائیگاں تھا مَیں- زر معتبر (1995)
کشکولِ جان و دل میں زرِ رائیگاں تھا میں
بازارِ حسن و عشق کا سنگ گراں تھا میں
ابرِ رواں بھی میرے تماشائیوں میں تھا
شاخِ ہوا پہ جلتا ہوا آشیاں تھا میں
کوئی کرن نہ صبح کا تارا تھا ہمرکاب
ٹھہرا ہوا فصیل پہ شب کا دھواں تھا میں
مبہم عبارتوں کا تسلسل سے تھا نزول
دوشِ ہوائے حرص پہ حرفِ گماں تھا میں
پانی کا دُور دُور بھی کوئی پتہ نہ تھا
ہر رہگذر کی گردِ رہِ کارواں تھا میں
سر پر رکھی تھی توُ نے ہی خلعت جواز کی
ہونے کے اور نہ ہونے کے جب درمیاں تھا میں
بے چہرگی ہی اپنی تھی پہچان ان دنوں
تُو نے نشاں دیا ہے مجھے بے نشاں تھا میں
آبِ خنک کے ذائقے سے آشنا کیا
تشنہ لبی کی درد بھری داستاں تھا میں
پیشِ نبیؐ یہ نعت ہوئی رات جب ریاضؔ
سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ حاضر وہاں تھا میں