خیمہ زن ہے یہاں موسمِ بے ثمر، اک کرم کی نظر اک کرم کی نظر- تاجِ مدینہ (2017)
خیمہ زن ہے یہاں موسمِ بے ثمر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی
نظر
شان رحمت کی حالات کے دوش پر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
اشک ہائے ندامت سے لبریز ہے، کاسۂ آرزو، دامنِ شعر و فن
سر جھکائے کھڑا ہوں سرِ رہگذر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
زخم محرومیوں کے ہیں چاروں طرف، شامِ آلام کا صرف مَیں ہوں
ہدف
ایسے عالم میں جاؤں، نبی جی ﷺ ، کدھر؟ اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
جھاڑیوں میں کوئی ایک جگنو نہیں، بے چراغِ عمل ہے مری سر
زمیں
کس خرابے میں ہیں میرے شام و سحر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
آج بھی ہر طرف جبرِ شب کا دھواں، آج بھی ہیں اڑی امن کی
دھجیاں
ہر صدا ہے مری آج بھی بے اثر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
اپنے اپنے مفادات کی قید میں، دل کے رشتوں کا کوئی بھرم
کیا رکھے
زندگی بن گئی رغبتوں کا سفر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
خود ستائی کے ہیں کاغذی پیرہن، میرے خارش زدہ جسم کی خاک
پر
سامنے زندگی کا کٹھن ہے سفر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
اپنا کشکول کب سے اٹھائے ہوئے، آرزوؤں کی چادر بچھائے ہوئے
آپ ﷺ کے در پہ ہے آپ ﷺ کا بے ہنر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
ان حوادث کی یلغار کے سامنے، بے یقینی کی دیوار کے سامنے
مَیں سسکتا رہا، یا نبی ﷺ ، عمر بھر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
کس کو منصف بنا کر مَیں دعویٰ کروں، کس کے ہاتھوں پہ اپنا
تلاشوں لہو
کس سے مانگوں گواہی کے تیغ و سپر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
کوئی مظلوم کا ہمنوا ہی نہیں، عدل کے نام سے آشنا ہی نہیں
قافلے لٹ رہے ہیں سرِ رہگذر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
ہاتھ مفلوج اور لب مقفّل ہوئے، میرے الفاظ بھی ریگِ مقتل
ہوئے
جلتے کاغذ پہ لکھے گا کیا نوحہ گر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
ساعتیں بے ارادہ گذرتی رہیں، کشتیاں بارشوں میں اترتی رہیں
پھر بھی تشنہ رہا زندگی کا شجر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
اپنی غیرت کے مدفن سجاتے ہیں ہم، اور دیے اُن پہ شب کو جلاتے
ہیں ہم
عہدِ رفتہ کبھی آئے گا لوٹ کر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
امتِ بے وسیلہ کہاں جائے گی، کب تلک در بدر ٹھوکریں کھائے
گی
حالِ دل کہہ رہی ہے مری چشمِ تر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
مشعلیں چھن چکی ہیں امیرِ امم ﷺ ، کھو چکے ہیں چراغِ نقوشِ
قدم
کس طرح رات امت کی ہو گی بسر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
دجلۂ خوں عرب میں بہایا گیا، اس کو قیدی قضا کا بنایا گیا
امن کی فاختہ کے کٹے بال و پر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
زر کی جھوٹی انا کی نہیں ہم غذا، اِس کو کہتے پھریں ’’یا
خدا‘‘ ’’یا خدا‘‘؟
کُل جہاں ابتلا میں ہے خیر البشر ﷺ ، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
امتِ خستہ جاں کو ردائے کرم، اس کے ہاتھوں میں بھی فیصلے
کا قلم
ہے ابھی تک یہ انجام سے بے خبر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
عزم کے چاند اب کیوں نکلتے نہیں، پھول افلاک سے کیوں برستے
نہیں
شب کے مارے ہوؤں کو نویدِ سحر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
مَیں کہ سر تا قدم ایک فریاد ہوں، آنسوؤں کے جزیروں میں
آباد ہوں
حیرتوں کے ہیں چاروں طرف بحر و بر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
ظاہری نور و نکہت ہے ایمان میں، پھول کاغذ کے رکھتا ہوں
گلدان میں
گلشنِ جسم و جاں ہے کھنڈر کا کھنڈر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر
مَیں ریاضؔ آپ ﷺ کا شاعرِ خوشنوا، مارا مارا پھروں یا رسولِ
خدا!
مجھ کو طیبہ میں دیں ایک چھوٹا سا گھر، اک کرم کی نظر، اک کرم کی نظر