خنک ساعتوں کا موسم- زر معتبر (1995)
حُروفِ صدق و صفا پر ازل سے پابندی
ازل سے قہر مسلط ہے فکرِ تازہ پر
بپا ازل سے ہے اک کشمکش سی ذہنوں میں
حضورؐ، آپؐ کے اسمِ شعور نے لیکن
سرابِ شب میں بھٹکنے سے روک رکھا ہے
میں ریگ زارِ قضا میں کھڑا ہوں صدیوں سے
حضورؐ میرے بھی ماتھے کی کُھردری شکنیں
نیاز و عجز کے سجدے تلاش کرتی ہیں
حصارِ جاں کے حوالے سے کیا لکھوں آقاؐ
زمینِ زرد کی ہوتی نہیں حنا بندی
غبارِ شب میں نقوشِ سحر نہیں ملتے
فصیلِ شہرِ محبت بھی آنکھ سے اوجھل
اِدھر ہے سانس کی ڈوری قضا کے ہاتھوں میں
اُدھر ہے ساعتِ مرگِ حیات پر قدغن
پکارتا ہوں اگر گنبدِ صدا میں حضورؐ
صدائے کرب و بلا لوٹ کر نہیں آتی
حضورؐ، آپؐ خنک ساعتوں کا موسم ہیں
بنامِ شام و سحر زہر پی رہا ہے کوئی
یہ کیسا جبرِ مسلسل ہے بستیوں پہ محیط
یہ کیسی آگ ہے جِس کا نہیں دُھواں کوئی
یہ کیسی رات ہے جس کا نہیں دُھواں کوئی
یہ کیسی رات ہے جس کی سحر نہیں ہوتی
حضورؐ آپؐ کی اُمّت ہے مقتلِ شب میں
خودی کو اہلِ ہوس نے بنا لیا لونڈی
گرفتِ شب میں ہراساں شعور کی کرنیں
ابھی ہے گردِ تخیل کی ظلمتوں کا نزول