اظہاریہ: ریاض حسین چودھریؒ کا وفورِ مدحت … ڈاکٹر ریاض مجید- روشنی یا نبی ﷺ (2018)
ریاض حسین چوہدری معاصر نعت کا وہ اعتبار ہیں جنہوں نے مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے اُردو نعت کی تخلیق میں نمایاں کام کیا۔ نعت رسول اکرم ﷺ سے ان کی وابستگی ہمہ وقتی تھی۔ وفور اُن کی نعت نگاری کا منفرد حوالہ ہے جو اُن کی زندگی ہی میں اپنا یقین اور اعتماد قائم کر چکا تھا۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں اردو نعت کے کئی معتبر نام سامنے آئے لیکن نعتیہ احساسات و جذبات کے اظہار میں جو ’وفور‘ چوہدری صاحب کے حصے آیا وہ انہی سے خاص ہے۔ اُن کی وفات کے بعد اِس وفور کی کئی متنوع صورتیں سامنے آئیں۔ انہوں نے افقی (Horizental) اور عمودی (Vertical) دونوں حوالوں سے اردو نعت میں کئی اضافے کئے۔ افقی سطح کو نعت کے مواد، مضامین وموضوعات اور افکار و خیالات سے ’تعبیر‘کیا جائے اور عمودی سطح کو نعتیہ اظہار کے قرینے، اسالیب اور ہئیتی تنوع کے مفہوم میں لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوںنے ہر لحاظ سے اُردو نعت کو ثروت مند کیا۔ ’تعبیر‘ اور ’مفہوم‘ کی یہ حد بندی عاجز کی ایجاد بندہ ہے جو اپنے سیاق و سباق کی وضاحت کے لئے کچھ تفصیل چاہتی ہے۔
اردو نعت کا آغاز جب عربی اور فارسی کے ذریعے برّصغِیر میں نئی نئی آنکھیں کھولنے والی زبان اردو میں ہوا تو اس کے ابتدائی نمونے صوفیائے کرام کی بعض جکریوں (روزمرّہ کے کام کاج کے دوران میں زیر لب یا ذرا اونچی آواز میں دہرائے جانے والے اذکار پر مشتمل دو دو چار چار بندوں کی چھوٹی چھوٹی نظمیں، جکری ذکر کے مفہوم میں ہے) میلاد ناموں، جنگ ناموں، وفات ناموں، معراج ناموں، وفات ناموں، معجزات ناموں اور غزل، قصیدہ کی صورت میں سامنے آئے۔ پچھلی چار صدیوں میں اردو نعت اپنے ابتدائی نمونوں سے یک کتابی طویل نظموں تک میں اپنے ارتقاء کے کئی مراحل طے کر چکی ہے۔ یہ تکمیل رُو صنف جسے میں ’سیّدالاصناف‘ کہتا ہوںاردو کی قدیم اور جدید تمام اصناف سخن سے متعارف ہو چکی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ نعت کے اسلوبیاتی پھیلاؤ میں جس صنف کے یہ زیادہ قریب رہی ہے اور آج بھی ہے وہ غزل کی صنف ہے۔ نعت ہی نہیں دوسری تقدیسی اور عقیدتی اصناف (حمد ومنقبت وغیرہ) کا زیادہ اظہار بھی غزل کی ہئیت میں ہُوا۔ تقریباً 90 فی صد۔ ۔ ۔ اور بعض شاعروں کے ہاں 95 سے 100 فی صد تک __بلاشبہ اردو میں کئی شاعر ایسے ہیں جنہوں نے زندگی بھر جو نعتیہ شاعری کی ہے وہ غزل کی ہئیت میں کی ہے۔ اگر بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے پہلے بیس سالوں کی نعتیہ کتابوں میں چھپنے والی نگارشات کی ہئیتوں کے اعداد و شمار کا سرسری انداز میں بھی جائزہ لیں تو 90 سے 95 فی صد والی بات کی صداقت کا احساس ہوتا ہے۔ نعتیہ کتابوں میں زیادہ تر غزل کی ہئیت میںہوتی ہیں کہیں کہیں کوئی نظم بھی نظر آتی ہے لیکن وہ بھی عنوان کے بعد غزل ہی کی صنف میں ہوتی ہے__بند وار نظم۔ کہیں کوئی معرا نظم، آزاد نظم، رباعی یا نعتیہ قطعہ وغیرہ بھی مل جاتا ہے۔ [ویسے ’’اردو نعتیہ کلام میں استعمال ہونے والی اصناف کا ہئیت وار شماریاتی مطالعہ ‘‘ تحقیق و تنقید نعت کا ایک اچھوتا موضوع بنتا ہے اس پر کسی ریسرچ سکالر کو کام کرنا چاہیے۔ ]
اس کی بڑی وجہ ہماری غزل پسند طبیعت ہے ہمیں (فارسی، اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں کے شاعروں کو) غزل کی صنف /تکنیک/ ہئیت اظہار کے لئے جتنی موزوں لگتی ہے کوئی دوسری صنف نہیں۔ غزل بلاشبہ اپنے موضوعاتی تنوع، افکار کی ریزہ کاری اوراپنے علائم ورموز کے کلاسیکی ذخیرے کے سبب اظہار کے لیے بہت مفید مطلب ہے۔ مجھ ایسے سہل کاروں کو اس کا یہ فائدہ بھی بہت موافق طبع لگتا ہے کہ اس کی تخلیق کئی نشستوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ دو شعر آج کہہ لئے، دو کل اور دو تین جب موڈ ہُوا۔ یوں اس صنف میں اُس وحدت تاثر کے مجروح ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتاجس کی نظم میں ضرورت ہوتی ہے۔ غزل میں چونکہ ہر ایک شعر ایک جداگانہ فکری اکائی کا ترجمان ہوتا ہے اس لئے یہ جب بھی مکمل ہو اور جتنی قسطوں میں بھی تکمیل یاب ہو اپنے مکمل ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے__نظم میں ایسا نہیں ہوتا اس کے مرکزی خیال کی باقاعدہ منصوبہ بندی__ اس کے مختلف بند، کینٹو، سٹانزے یا حصّے نظم کے داخلی فکری بہاؤ کی مناسبت سے پیش نظر رکھنے پڑتے ہیں، وہ غزل کی نسبت ہم سے زیادہ توجہ طلب کرتی ہے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ غزل میں بہت بڑی شاعری تو ہو سکتی ہے عالمگیر سطح پر کسی عظیم فن پارے کا اس صنف میں ظہور پذیر ہونا مشکل امر ہے۔ دنیا بھر کی معروف اور بڑی شاعری مثلاً ہو مرکی اوڈیسی (Odyssey) ایلیڈ (iliad) فردوسی کا شاہنامہ، مولانا روم کی مثنوی، ملٹن کی جنتِ گم گشتہ (Paradise Lost) ڈانئے کی طربیہ خداوندی Divine comedyسے لے کر ٹی ایس ایلیٹ کی جہانِ خراب (Waste land) علامہ اقبال کی اسرارورموز اور ’جاوید نامہ‘ وغیرہ ایسی ہیئتوں میں ہیں جن میں معنوی بہاؤ اور فکری وسعتوں کی گنجائش اور اظہار کے متنوع قرینوں کی گنجائش ہے اور وہ غالب کے لفظوں میں تنگنائے غزل سے باہر کی چیز یں ہیں۔ مرزا غالب کا یہ شعر نعت کے بارے میں بہت صحیح ہے۔
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
چھ اور چاہئیے وسعت مرے بیاں کے لئے
نعتیہ بیان کے لئے کسی صنفی وسعت کی تلاش ہمارے شاعروں نے بھی کی __وہ غزل کے صنف سے باہر نکلے۔ انہوں نے یک کتابی طویل نعتوں کے لئے غزل کی جگہ قصیدہ یا مثنوی یا دوسری ملی جلی ہئیتوں کو استعمال کیا۔ اس حوالے سے کئی ایسی شاہکار کتابیں سامنے آئیں جن میں سیرتی اور نعتیہ مضامین کی ترجمانی کی گئی مثلاً درج ذیل کتابیں دیکھئے:
شاہنامہ اسلام (حفیظ جالندھری) فخر کونین (محشر رسول نگری) دارین (احسان دانش) منحمنا، فارقلیط، حمطایا، عبدہٗ ( عبدالعزیز خالد)، سلسلۂ الجرس (عمیق حنفی ) رحل نظر (نظر مہدی) مدحت رسول کی (شکیل اورنگ آبادی) وغیرہ وغیرہ یہ طویل یک کتابی غیر غزلیہ (بندوار، مثنوی، قصیدہ یا نظم کی ملی جلی) ہئیتوں میں ہیں۔
ہمارے نعت گو شاعروں میں اس مسئلہ کو ریاض حسین چوہدری نے محسوس کیا۔ انہوں نے غزل کی ہئیت میں متعدد مجموعے تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ غیر غزلیہ ہئیتوں میں بھی نعتیہ اظہار کا سوچا۔ اُن کا زیرِ نظر نعتیہ مجموعہ اُن کے اسی طرزِ احساس کا ثبوت ہے۔ نظم کی ہئیتوں میں ریاض حسین چوہدری نے اپنے دوسرے مجموعوں میں بھی نظم کے کئی نمونے پیش کئے مگر یہ کتاب خصوصیت سے نظموں کے تناظر میں ترتیب دی گئی ہے۔ اس کے مندرجات پر ایک نظر ڈالنے سے اس کتاب میں نعتیہ موضوعات کی کثرت اور ہئیتوں کے تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ میں اپنے قارئین کی توجہ پھر اس امر کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ (1) ریاض نے غزل میں نعت نگاری کے ساتھ نظم کی اہمیت کو محسوس کیا (2) یہ احساس سرسری نہیں اسی وفور کا حامل ہے جو اُن کی غزلیہ نعتوں میں ملتا ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ کیونکہ مرزا غالب کے لفظوں میں ’’ تنگنائے غزل‘‘ میں اس ذوق کا وفور سمٹ ہی نہیں سکتا تھا جو وہ نعتیہ محسوسات کے لئے رکھتے تھے۔
نظم کی جو ہئتیں اردو شاعری میں آج مروج ہیں اور جو کبھی مستعمل رہی ہیں ان کی شکلیں بے شمار ہیں۔ پابند نظم، آزاد نظم، معرانظم، قطعہ بند نظم، ترکیب بند، ترصیع بند، نثم (نثری نظم) وغیرہ--- نظم سے ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ غیر غزلیہ ہر صنفِ شاعری اس میں آ جاتی ہے جس میں رباعی، قطعہ، مثلث یا مسمط کی بہت سی شکلیں شامل ہیں۔ یوں دوسری زبانوں سے اردو شاعری کا حصہ بننے والی اصنافِ شاعری سانیٹ، ماہیا، دوہے، سی حرفیاں، بارہ ماہے وغیرہ بھی نظم ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔
’نظم کی ہئیتوں میں ریاض کی حمد و نعت‘ کا جائزہ لیں تو درج ذیل ہئیتیں یا شعری شکلیں نظر آتی ہیں۔
(1) غزل کی طرز پر لکھی گئی نعتیہ نظمیں (2) قطعہ بندنظمیں (3) چار چار مصرعوں والی نظمیں جن کے دوسرے اور چوتھے مصرعے ہم قافیہ ہیں (4) رجوعی انداز غزل کی صنف میں (5) ملّی نغمہ نمانظمیں (6) ہندی انداز کی نظمیں (7) ٹیپ کے مصرع والی قطعہ بندنظمیں (8) چار چار مصرعوں پر قطعہ بند نظمیں جن میں استغاثہ اور شہرِ آشوب کا رنگ نمایاںہے اور امت کے زوال، انتشار اور ظلم کے ماحول کے باوجود شاعر کی نعت گوئی مدحت کے وفور سے عبارت ہے۔ ان ملی جلی ہئیتوں والی نظموں کے کچھ نمونے دیکھئے:
لکھا یزیدِ وقت نے آبِ فرات پر
اپنے لہو سے کربلا والے کریں وضو
اپنے ہی مدفنوں میں مسلماں رہیں مقیم
افغانیوں کا اب کے برس بھی جلے لہو
ہنگامِ شور و شر کے تسلسل کے باوجود
کلماتِ شکر میری زباں پر سجے رہے
حمدِ خدا کے میں نے بھی روشن کئے چراغ
اب کے برس بھی نعت کے گلشن کھِلے رہے
میری ہے التجا ‘ ہو تحسین میرے فن کی
آقا چراغ بانٹے خوشبو مرے سخن کی
ٹھنڈی ہوا ادھر سے آتی نہیں ہے آقا
صورت بدل گئی ہے کب سے مرے وطن کی
اس شعر میں علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
میرِؐ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
آؤ مرے حضورؐ کے فرمان کی طرف۔ ۔ ۔ یہ بھی قطعہ بند نظم ہے۔ نظم کا متن عنوان سے ظاہر ہے۔ ایک بند دیکھئے:
آؤ میرے حضورؐ کے فرمان کی طرف
پروانۂ نجات ملے گا تمہیں ضرور
ہر خوف سے رہائی ملے گی زمین پر
دیں گے ردائے مغفرت آقاؐ مرے حضورؐ
یہ نعت افطاری سے قبل مسجد نبوی میں لکھی گئی
O مصرا نظموں میں’ اے مدینے کے مسافر‘، ’ صبا آکر مجھے احوال طیبہ کے بتائے
گی‘۔
O آزاد نظموں میں’ مجھے طیبہ کی گلیوں کا مصورکر‘، ’ ابھی تک کھڑا ہوں حصار ادب میں‘،
خوف، اونچی فصیلوں سے نکلنے کی تمنا، ریاض آپؐ کی چشم کرم کا طالب ہے، نقش قدم
اورسفارش بہت مؤثر نظمیں ہے۔
O ملی جلی ہئیتوں میں ؎ اپنی چوکھٹ پہ کسی روز بلائیں آقا وغیرہ
بعض نظموں میں ریاض حسین چودھری نے یہ التزام رکھا ہے کہ ہر شعر کا پہلا مصرع ایک
ہی ہے جب کہ دوسرے میں وہ کوئی پیغام دیتے ہیں یا دعوت ثنا کی تکرار کرنے میں اسی
نظم میں ایک موثر نظم ’’خدا اگر انہیں توفیق دے تو ہمسفرو‘‘! ہے۔
O اے شہر خنک،
آمری آنکھوں میں سما جا
جیسی چند نظموں میں جو ڈرافٹنگ کے اعتبار سے معرّا ہیں مگر انہیں آزاد نظم کے طور پر تحریر کیا ہے، ممکن ہے شاعر نے کسی داخلی کیفیت کو ابھارنے کے لئے موجودہ صورت میں اس کی ڈرافٹنگ کی ہو۔ ایسی نظموں میں بہت سی لائنیں Run on lineکی طرح مدور صوتی آہنگ بناتی ہیں۔ وَفورِ جذبات کے اظہار کے لئے رواں دواں صوتی آہنگ کی موجودہ شکل اچھے تاثرات کی حامل ہے۔
خطابیہ انداز ریاض کا مخصوص انداز ہے۔ وہ اپنی کئی نظموں میں اپنے احباب، دوست
نعت نگار اور ملت اسلامیہ کے عام افراد کو اپنا شریک تجربہ کرنا چاہتے ہیں۔
؎ چلو اُس پار ہم بھی روشنی کے ساتھ چلتے ہیں۔
ایک ایسی ہی نظم ہے جو دعوت کے ساتھ وفورِ جذبات کی عکاس بھی ہے۔ ہوا، مدینہ کے
درو دیوار، موسم، متناسبات مسجد نبوی، زائرانِ حرم، پرندے، ہر شے ریاض کی مخاطب ہے،
یہ انداز اُن کے وفورِ جذبات کا مظہر ہے کہ وہ ساری فضا کو اپنا ہم تجربہ بنانے کے
آرزو مند ہیں۔
’قاتلوں کا بھی روز حساب آئے گا‘ عراق پر امریکی جارہیت کے تناظر میں لکھی ہوئی نظم
ہے۔ ملّت اسلامیہ کا آشوب ریاض کا مستقل موضوع ہے۔ وطن عزیز کا کوئی دکھ ہو یا کسی
برادر اسلامی ملک کا، جہاں بھی انہیں ملّتِ اسلامیہ کے بلاد یا افراد مصیبت میں نظر
آتے ہیں، ریاض انہیں فرداََ فرداََاشعار میں یا کسی نظم کی صورت میں استعارے کی صورت
میں نعتیہ منظومات کا حصہ بناتے ہیں یہ لائنیں دیکھئے:
یا نبیؐ
آپؐ کی امتِ بے نوا
قتل گاہوں میں ہے
امتِ بے نوا کے جواں سال بیٹے
عروسِ شہادت کی بانہوں میں بانہیں دیئے
چل بسے ہیں
ہر طرف کربلا میں دھواں ہی دھواں ہے
غم کی تصویر ہے خوں نگلتی فضاؤں میں حیرت زدہ
شہر بغداد پر خون برسا بہت
O ’سانحہ نشترپارک ‘ بھی اسی قبیل کی نظم ہے جو پُر تاثیر ہونے کے ساتھ خبرداری (Alarming) کے عناصر بھی رکھتی ہے ’ہوا رو پڑی ہے ‘ 8 اکتوبر 2005 کے قیامت خیز زلزے پر لکھی گئی نعتیہ نظم بھی آشوب وطن کا نوحہ ہے یہ سطریں دیکھئے:
ہوا سوچتے سوچتے رو پڑی ہے
قلم نوحہ لکھتے ہوئے سسکیوں ہچکیوں کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے
زمیں رو رہی ہے
کہ میں کیسی ماں ہوں
جو اپنے ہی بچوں کو کھانے لگی ہوں
حسیں وادیوں میں قیامت کے لمحے بھی خیمے لگائے ہوئے
نبی جیؐ
کرم ہو
O فریاد بحضور سرور کونین بھی ایسی ہی دل گذار نظم ہے:
حضورؐ، اُمّتِ عاصی کا حال کیا لکھّوں
تمام فصل مہاجن کے پاس گروی ہے
ہمارا ذوقِ تجارت کہیں نہیں رکتا
متاعِ عشق بھی نیلام گھر میں رکھی ہے
O ’آرزوئے مدینہ کیا کر‘____نظم کا ہر شعر کا پہلا مصرع انہی الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ تکرار کا یہ انداز ریاض کی کئی نظموں میں نمایاں ہے۔ یہ انداز تنبیہ، دعوت اور مختلف کیفیتوں کا ترجمان ہے اور نظموں میں جذباتی گہرائی کے تصوّر کو ابھارتا ہے۔
O بعض نظمیں ہم مطلعی ہیں جیسے ؎’ گزر رہی ہے مدینے کے لالہ زاروں میں‘ یہ بتیس مصرعوں کی نظم سوائے ایک مصرع کے بہاروں، ستاروں، دھاروں، حصاروں، سواروں وغیرہ کے قوافی پر مشتمل مطلع اور مطلع صورت میں ہے:
O کچھ نظمیں گیت کے انداز میں مثلاََتاجدار حرم کا یہ بند:
یا شفیع الوریٰ یا حبیب خدا
تاجدارِ حرم، سرورِ انبیاء
اس طرف بھی کرم کی نظر کیجئے
میری بنجر زمینوں پہ برسے گھٹا
سنگریزوں کو لعل و گہر کیجئے
زیرِ نظر کتاب میں شعری اور تخلیقی انداز کے کچھ اور نعت پارے بھی بڑے مؤثر ہیں جو نظموں کے سیاق و سباق کے علاوہ بھی اپنی تلازماتی وسعتوں اور معنوی بہاؤ میں بڑے پُرتاثیر ہیں۔
جھپٹ پڑے ہیں اندھیروں کے غول بستی پر
دیے جلانے کا منصب سنبھالنا ہو گا
نقوشِ پائے نبیؐ سے چراغ لے لے کر
شبِ سیاہ کا چہرہ اجالنا ہو گا
اُمّت کا اور اس کے ہر حکمراں کا کب سے
رستہ جدا جدا ہے، فریاد، یا نبیؐ جی
وہؐ جس پہ اترا کلامِ آخر
جو ساتھ لایا پیامِ آخر
وہؐ انبیا کا امامِ آخر
پڑھو درود و سلام اُس پر
فرشتو! نامۂ اعمال میں یہ بھی تو لکھّو گے
کسی پر طنز کے پتھر نہیں برسائے ہیں اس نے
کسی کا دل دکھانے کا ہنر اس کو نہیں آتا
ہمیشہ بن کے یہ ’مرہم‘ سجا رہتا ہے زخموں پر
ہر ہر اُفق پہ چاند ستاروں نے یہ لکھا
دنیا میں اب رہے گا سویرا حضورؐ کا
اب دوسری کسی کی قیادت نہیں قبول
اب حشر تک اڑے گا پھریرا حضورؐ کا
نعت گوئی ہے اس کا حقیقی سفر، امتِ بے نوا کاہے یہ نوحہ گر
اشکِ تر میں ہے ڈوبی ہوئی شاعری‘ اپنے شاعر کے احوال پر بھی نظر
میرے آقاؐ سے بڑھ کر حسیں کون ہے
بزمِ ہستی میں مہرِ یقیں کون ہے
دونوں عالم کا نورِ مبیں کون ہے
سرمدی خلعتوں کا امیں کون ہے
لامکاں پر سفیرِ زمیں کون ہے
آج مہمانِ عرشِ بریں کون ہے
سوئے فلک جاتا ہے ابرِ کرم
آج مہکی ہوئی ہے فضائے حرم
ہے شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں کا منگتا
کس رقص کے عالم میں تھا کشکولِ گدائی
کچھ وَجدِ مسلسل کا ہمیں حال سناؤ
جو اس کے دل و جاں پہ تھی گزری وہ بتاؤ
سرکار کی گلی میں مَیں اجنبی نہیں ہوں
دیوار و در سے میری بھی گفتگو ہوئی ہے
میں ملتمس کھڑا ہوں دربارِ مصطفیٰؐ میں
اندر بھی روشنی ہے، باہر بھی روشنی ہے
ٹھنڈی ہوا ادھر سے آتی نہیں ہے آقاؐ
صورت بدل گئی ہے کب سے مرے وطن کی
طوافِ گنبدِ خضرا میں تھی مصروف بینائی
قلم خوش بخت بھی طاقِ غلامی میں فروزاں تھا
بہت کچھ لینے آیا ہوں، بہت کچھ دیجئے، آقاؐ
مری محرومیوں کا آج ساماں کیجئے، آقاؐ
خدا اگر تمہیں توفیق دے تو ہمسفرو!
کتابِ عشقِ محمدؐ کا بابِ نو کھولو!
میرے بیٹے مدثر پہ چشمِ کرم، مرسلِ مرسلاںؐ، مرسلِ محتشم!
اِس کو رستہ دکھائے چراغِ حرم، مرسلِ مرسلاںؐ، مرسلِ محتشم!
آپؐ کی نعت اِس کی زباں پر رہے، اِس کی قسمت بھی ہر آسماں پر رہے
اِس کو اپنی غلامی کا دیجئے علَم، مرسلِ مرسلاںؐ، مرسلِ محتشم!
اُس شخص کو ہر وقت میں دیتا ہوں دعائیں
جو شخص مدینے میں مرے ساتھ کھڑا ہے
سرکارؐ، مدثر بھی پریشان ہے کب سے
سرکارؐ، غم و یاس کی تصویر بنا ہوں
آرزوئے مدینہ کیا کر، تیری بگڑی ہوئی خود بنے گی
کہکشاں آسماں سے اتر کر، تیرے گھر میں چراغاں کرے گی
ہر بلندی آپؐ کی چوکھٹ پہ ہوتی ہے نثار
ارتقا کا ارتقا ہے آپؐ کا شہرِ کرم
سرکار بلائیں گے
طیبہ کے گلستاں میں
ہم لوگ بھی جائیں گے
ہماری سالمیت اک کھلونا بن گئی آقا
کتابوں میں سمٹ کر رہ گئی تیمور کی غیرت
چمن کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں ہے یا رسول اللہؐ
لہو برسے فضاؤں سے مگر ہوتی نہیں حیرت
ہادیِ انس و جاں اُمّتِ ناتواں
آپؐ کے در پہ کب سے ہے نوحہ کناں
لٹ گئی ہے متاعِ ہنر کیا کریں
اے شفیع الاممؐ، رحمتِ دو جہاں
ہر ورق گم ہے تاریخ کی گرد میں
اشکِ تر سے لکھی جائے گی داستاں
بال و پر نوچ ڈالے گئے شاخ پر
تنکا تنکا ہوا آج بھی آشیاں
سر برہنہ کھڑے ہیں کڑی دھوپ میں
اپنے سر پر نہیں، یا نبیؐ، سائباں
پنڈی سے میرے آقاؐ پیغام یہ ملا ہے
عیدی مرے نبیؐ سے میرے لئے بھی لانا
میرا سلام کہنا آقاؐ کی بارگہ میں
سب حال میرا میری سرکارؐ کو سنانا
مرے اس خارجی ماحول میں بارود پھیلا ہے
مرے باہر کا انساں مضطرب ہے
وہ کدھر جائے
حصارِ خوف میں بچے
شرارت بھی نہیں کرتے
کھلونوں سے بھی ڈرتے ہیں
حضورؐ، آپؐ سے مانگے ہیں عافیت کے گلاب
مرے خیال کے طائر سحر تلک چہکیں
مرے دریچوں میں بادِ صبا رکھے کلیاں
خوشی کے پھول مری شاخ شاخ پر مہکیں
ریاض حسین چودھری کی نعتیہ تخلیقات میں اُن کی تراکیب سازی نے بھی اہم کردار ادا
کیاہے جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں تراکیب میں دو لفظوں کو ملا کر ایک نئی معنویت تلاش
کی جاتی ہے اور بعض اوقات حِسّ آمیزی (Synethesia) سے اپنے تخلیقی تجربے کو مؤثر
بنایا جاتا ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں درجِ ذیل تراکیب دیکھئے:
رزقِ شامِ قفس، اوراقِ حرفِ غم، کربلائے عصرِ رواں، لوحِ جہاں، دستِ قضا، ہوائے عجز،
لوحِ طلب، متاعِ اشکِ ندامت، ہوائے جبر، بیاضِ نعت، نقشِ کفِ پائے رسولِ محتشمؐ، گوشۂ
مدحت، کتابِ لب کُشا، خیمۂ سرکارؐ، فصیلِ شہرِ تمنا، سپاہِ شر، ردائے حفظِ مراتب، ضمیرِ
مردہ، سیّدِ سادات، صاحبِ میقاتؐ، حسن و جمالِ شہرِ مناجات، سرتاجِ انبیاء و رسل، پرتوِ
خدائے سماوات، چشمِ عنایات، کشکولِ آرزو، کربلائے عَصر، دافعِ آفات، سپاہِ شب، خلدِ
مدینہ، اشکِ رواں، محبوبِ کبریا، آیاتِ لب کُشا، سلطانِ دوسرا، سردارِ انبیائ، دہلیزِ
مرتضیٰ، افکارِ دلکشا، انوارِ پر کشا، اصحابِ مجتبیٰ، ابوابِ ارتقا، حرفِ التجا، سرکارِ
دو جہاںؐ، سالارِ کارواںؐ، مقصودِ ہر زماں، سیّاحِ لا مکاںؐ، توقیرِ آسماں، سرتاجِ
مرسلاںؐ، تنویرِ جاوداں، مسجودِ قدسیاں، لمحاتِ زرفشاں، عنوانِ داستاں، سردارِ مقبلاں،
خاکِ شفا، بابِ حرم، میزابِ ابرِ رحمت، حطیمِ اقدس، گہِ پیمبرؐ، امامِ برحق، مہمانِ
عرشِ اعظم، مضروبِ وادیٔ طائف، خطّہ محبت، شامِ روشن، محبوبِ ربِّ اکبر، شہنشاہِ مرسلیںؐ،
رسولِؐ آخر، جوازِ ارض و سما، دلیلِ صبحِ بقا، نصابِ شہرِ دعا، بہارِ گلشنِ طیبہ، مکینِ
گنبدِ خضرا، نکہتِ ارض وسما، حاملِ صدق و رضا، شافعِ روزِ جزا، مرکزِ جود و سخا، انتہائے
منتہا، دانشِ شام و عجم، میر و سلطانِ امم، مرکزِ لطف و کرم، زینتِ بزمِ خیال، رفعتِ
برجِ کمال، آفتابِ لازوال، مہرِ چرخِ اقتدار، منبعِ لطفِ عمیم، مرکزِ رشدِ قدیم، حاملِ
خلقِ عظیم، انتہائے آگہی، ہوائے وادیٔ بطحا، زمینِ شہر رخشندہ، حُبِّ خرم المرسلیںؐ،
دستارِ توصیف و ثنا، معراجِ کلکِ خوشنوا، اخبارِ الطاف و کرم، بنیادِ قصرِ ارتقا، صبحِ
گلستانِ ادب!، برگِ چمن زارِ دعا، خوشبوئے اسمائے نبیؐ، جانِ نطقِ بے نوا، نکہتِ خیرالبشرؐ،
رونقِ شہرِ صدا، تفہیمِ قرآنِ عظیم، تاجِ عرفانِ خدا، سرمایۂ قلب و نظر، وجہِ تخلیقِ
شفا، چرخِ بخشش، انوارِ دامانِ حرم، انوارِ دامانِ سحر، بارانِ ارضِ انبیا، نجاتِ اُخروی،
ندرتِ لوح و قلم، چراغِ دیدۂ بینا، فضائے جشنِ میلاد النبیؐ، شاکِ آرزوئے دید، ہوائے
خلدِ طیبہ، نسبتِ سرکارِ دو عالمؐ، ذاتِ گرامی، تاریخِ کائنات، روزِ عید بزمِ رسالت،
صبحِ سعادت، نورِ ہدایت، عصرِ پریشاں، فراتِ عشق، حصارِ تشنہ لبی، گلشنِ ہستی، ابرِ
رحمت، کلکِ مدحت، کائنات قلب و جاں، شاخِ مدحت، بزمِ امکاں، طشتِ رحمت، مرکزِجودوسخا،
شہرِ مدحت، حرفِ مبہم، خوشبوئے نطق و بیاں، آفتابِ ہر جہاں، رونقِ بزمِ جہاں، زینتِ
بزمِ تخیل، گرمیٔ کون و مکاں، سجدۂ گاہِ قدسیاں، ذکرِ آمدِ خیرالبشرؐ، افتخارِ مرسلاں،
امتِ بے نوا، زرِ آگہی، عرضِ تمنا، حروفِ سبز، کشتِ ثنا، قندیلِ عشق، حرفِ نعتِ پیمبرؐ،
سپردِ لوح و قلم، لوحِ سخن، حرفِ درود، خلدِ زمیں، تصویرِ ادب، حرفِ آرزو، نغماتِ
ثنا، شہرِ بے مثال، چادرِ رحمت، منصبِ مدحت، شہرِ صد رنگ، دہلیزِ پیمبرؐ، سلامِ شوق،
سرورِ کون و مکاں، ہجومِ کرمکِ شب، نزولِ رحمتِ باری، حروفِ آرزو، فصیلِ آرزو، طوافِ
گنبدِ خضرا، ہجومِ زخمِ نادیدہ، محرابِ یقیں، شبِ نطق وبیاں، کلکِ نمدیدہ، اسنادِ رحمانی،
تضحیکِ انسانی، پیکرِ شفقت، محبوبِؐ سبحانی، درِ دولت، تختِ سلیمانی، کلکِ ادب، مرسلِ
آخرؐ، زعمِ سلطانی، ہادیٔ برحق، شبِ غفلت، قصرِ مدحت، شہرِ مدحت، زارِ دعا، یلغارِ
طوفانی، چراغِ آرزو، صاحبِ حکمت، فروغِ مدحتِ آقاؐ، جوارِ دل، چراغِ جشنِ ولادت،
بہارِ شہرِ مدینہ، ریگِ تمنا، ردائے خاکِ کرم، مرسلِ مرسلاںؐ، مرسلِ محتشمؐ، غبارِ عجم، طفلانِ
شہر نور، خلدِ مدینہ، نزولِ آیتِ عشقِ نبیؐ، چراغِ نسبتِ سرکارؐ، سرِ شاخِ لبِ تشنہ،
رہوارِ شوق، شمعِ غلامی، مصباحِ عشق، شاہِ انس و جاں، حروفِ جمال، کلکِ رضا، حرفِ تسلی،
لمحاتِ منور، شہرِ اضطراب، غبارو گردِ شبِ ابتلا، شعورِ نعتِ پیمبرؐ، ثنائے مرسلِ آخرؐ،
سیدِ عالمؐ، کربلائے عصر، طائفِ عہدِ جدید، منزلِ خورشید، حسرتِ کلکِ ثنا، قریۂ فقر
و غنا، جادۂ صبر و رضا، مخزنِ لطف و عطا، رونقِ عرشِ بریں، زینتِ فرشِ زمیں، خلدِ آقاؐ،
آقائے معظمؐ وغیرہ وغیرہ
ان تراکیب میں کچھ تراکیب ہماری شاعری کی مستعمل اور سامنے کی تراکیب ہے لیکن کچھ تراکیب نادرہ کاری اور تازہ بیانی کی عکاس ہے خصوصاً ان کا استعمال جن جگہوں پر ہُوا ہے اپنے شعری سیاق و سباق میں وہ تراکیب بہت پُرتاثیر اور بلیغ نظر آتی ہیں۔
بحیثیت مجموعی ریاض حسین چوہدری کا یہ مجموعۂ نعت ایک طویل نظم ہی کے مختلف حصّے محسوس ہوتے ہیں۔ ایک’ موزیک‘ (Mosaic) سٹائل کا نعت پارہ جو پورے کا پورا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک سے والہانہ عقیدت کا مظہر ہے ارادت وعقیدت کا ایسا وفور جو نظم کی مختلف ہیئتوں کی حد بندی میں حد درجہ کوشش کے باوجود سمٹتا نظر نہیں آتا جسے ہماراعقیدت نگار ریاض مختلف عنوانات کے تحت، نظم کی مختلف ہئیتوں میں سمیٹنے کی کوشش کر رہا ہے مگر اس کی ہر کوشش مکمل طور پر تکمیل یاب نہیں ہوتی، بہت کچھ کہہ کے بھی ہر بار کوئی نہ کوئی بات کہنے سے رہ جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے وہ ایک اور نظم لکھتا ہے مگر نئی نظم لکھ کر بھی اسے تسلّی نہیں ہوتی بقول علامہ اقبال:
غزلے ذدم کہ شاید ز نَوا قرار گیرم
تپِ شعلہ کم نہ گردد ز گسستنِ شرارے
زشرر ستارہ جویئم ز ستارہ آفتابے
سرِمنزلے نہ دارم کہ بہ میرم از قرارے
(میں غزل کہتا ہُوں کہ شاید اظہار سے سکوں مل جائے لیکن شعلہ سے کوئی ایک چنگاری نکل بھی جائے تو اُس کی تپش کم نہیں ہوتی۔ میں شرر سے ستارہ تلاش کرتا ہوں وہ مل جائے تو آفتاب کی آرزو کرتا ہوں۔ مجھے اپنے (مکمل اظہار یاب سکون کی) کوئی منزل نہیں مل رہی اور میں اسی دکھ میں مرا جا رہا ہوں۔ مفہوم۔ )
ریاض حسین چوہدری جس وفور میں ’مبتلا‘ ہے ساری عمر نعت سے وابستہ رہ کر بھی اس سے
اس وفور کا اظہار نہیں ہو رہا۔ تنگنائے غزل کو ’بقدر شوق‘ نہ پا کر جب اس نے نعت رسول
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کے لئے نظم کی ہئیت کو استعمال کیا تو یہاں بھی اسے
وہ ’قرار‘ نصیب نہیں ہُوا جو کامل اظہار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں نظم کی
مختلف ہیتیں استعمال کرنے کے بعد بھی لگتا ہے اس کے وفور کا اظہار مکمل نہیں ہُوا__
نعت کا اظہار مکمل ہو بھی کیسے سکتا ہے؟
یہ کائنات مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ آیۂ موسعون میں خالق کائنات کا فرمان ہے:
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰـھَا بِاَیْدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَo (سورۃ الذاریات:51:47)
’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقینا ہم (اس کائنات کو) وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیںo‘‘
اس آیۂ کریمہ کی سائنسی تشریحات کی تلازماتی وسعتوں میں غور کرنے سے اس کی ہزاروں ایسی صورتیں روز بروز سامنے آرہی ہیں جہاں آپ ؐ کی رحمت للّعالمینی کے فیوض و برکات کے تازہ دَر وَا ہو رہے ہیں شیخ سعدی کے لفظوں میں ؎
نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں
ریاض حسین چوہدری اور اُن کے ہزاروں ہم نوا مسلسل بھی ثنا پیرا رہیں تو آپؐ کے فضائل و شمائل کے ایک رخ کی بھی مکمل توصیف نہیں کر سکتے۔
ریاض حسین چوہدری کے وفورِ نعت کا بڑا حصّہ ابھی ناگفتہ ہے۔ ہزاروں صفحاتِ مدحت لکھنے کے بعد بھی ریاض کے سینے میں نعت کی محبت کا جو بے بایاں جذبہ تھا پوری طرح صفحات پر نہیں اُنڈیلا جاسکا۔ راقم کا ایک شعر ہے:
جو اُن کو دیکھ کر لکھنا ہیں، ہوں گی کیسی نعتیں؟
وہ نعتیں ! جن کو جنت پر موخّر کر رہے ہیں
اُن کی نعت میں کئی جگہوں پر ایسے خیالات ہیں جن میں زیر ِزمین بھی اُن کے مائل بہ نعت رہنے کے اشارے ملتے ہیں انہوں نے نعت حضورؐ میں بھر پور زندگی بسر کی۔ مجھے یقین ہے اپنی برزخی زندگی میں بھی وہ اپنے وفورکے ساتھ نعت آمادہ ہوں گے۔ ان کی روح ’نعت وابستہ‘ ہوگی۔ ان کی نعت انجام زندگی اب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت و ثنا کے اظہار کی تکرار اوراعادے میں مسرور و شاداں ہو گی۔ روایت ہے کہ جن اذکارو اعمال میں آدمی کے شب و روز گزریں اس کی روح برزخی زندگی میں بھی انہی احوال و کیفیات اور اذکار و اعمال سے منسلک رہتی ہے جن میں ان کی زندگی خصوصاً آخری ایّام گزرے ہیں۔ ریاض حسین چوہدری جس شدّت و تکرار کے ساتھ زندگی بھر نعت آمادہ رہے مجھے یقین ہے کہ ان کی ارادت مندی کا وفور اب بھی انہیں ہالہ کئے ہوئے ہوگا۔ رب کریم نے فرمایا ہے:
اِنِّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِo قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ط قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَo بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَo (یٰسین 36: 25 - 27)
’’بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ہوں، سو تم مجھے (غور سے) سنوo (اسے کافروں نے شہید کر دیا تو اسے) کہا گیا: (آ) بہشت میں داخل ہو جا، اس نے کہا: اے کاش! میری قوم کو معلوم ہو جاتاo کہ میرے رب نے میری مغفرت فرما دی ہے اور مجھے عزت و قربت والوں میں شامل فرما دیا ہےo‘‘
’’ اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ کرتے ہوئے حاشیے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک بڑی معنی خیز بات لکھی ہے۔ ’’یہ آیت منجملہ اُن آیات کے ہے جن سے حیات برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے جیسا کہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے، کلام کرتی ہے اور کلام سنتی ہے۔ جذبات و احساسات رکھتی ہے، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے اور اہلِ دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لئے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے با خبر ہوجائے ‘‘
(جلد چہارم، تفہیم القرآن، حاشیہ 23، سورہ یٰسین)
مَیں خوش گمان ہوں کہ رضا یاب طیّب روحوں کی طرح نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخلاص سے جڑے ہوئے وہ عقیدت نگار جنہوں نے طلب شہرت اور جلبِ زر کے بغیر غیر متزلزل طور پر اپنے آپ کو نعت جیسی با برکت اور پاکیزہ صنف سے وابستہ رکھا وہ مرنے کے بعد بھی اپنی تخلیقی سعیِ جمیلہ کے ثمرات محسوس کرتے ہوں گے۔ ریاض حسین چودھری مغلوبِ مدحت تھے ان کے غلبہ شوق کا و فور ان کی حیاتِ برزخ میں بھی انہیں نعت رسول اکرم سے کسی نہ کسی طور منسلک رکھّے ہوئے ہو گا۔
ان کے نسلی اور ذہنی لواحقین میں ان کے فرزندِ رشیدمحمد حسنین مدثر، ان کے فیض یافتہ انتہائی نعت فہم اور نعت شناس بھتیجے محمد بلال امجد چودھری اور ان کی نعت کے ہمہ وقت رفیق کار عبدالعزیز دباغ جیسی مخلص اور فدا کار شخصیات کے علاوہ ان کے نعت دوستوں اور نیاز مندوں کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے۔ مجھے یقین ہے وہ ہمیشہ ریاض کی نعت سے محب کے تذکار اور وابستگی کے چراغوں کو روشن رکھے گا۔
مَیں اپنے تاثرات اس رباعی پر ختم کرتا ہوں:
سرکار سے منفرد ارادت اُس کی
اظہار میں ڈھل گئی عقیدت اس کی
مر کر بھی رہے گا وہ ثنا آمادہ
اس طور تھی نعت میں محبت اُس کی
ڈاکٹر ریاض مجید
ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس، فیصل آباد