صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی- روشنی یا نبی ﷺ (2018)

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ دہلیزِ پیمبر ﷺ پر فرشتوں نے
درودِ پاک کے گجرے اٹھا رکھے تھے ہاتھوں میں
ادب سے سر جھکا کر نذر کرتی تھی سحر، کرنیں
لئے آنکھیں غلاموں کی کھڑی تھی چاندنی کب سے
سنہری جالیوں میں اَن گنت آنسو فروزاں تھے
ترے جذبوں کی مشعل جل رہی تھی ہر دریچے میں

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ ہر لمحہ سلامِ شوق کہتا تھا
ثنا کی تختیوں پر روزِ روشن کی طرح روشن
جنابِ سرورِ کون و مکاں کا نام لکھا تھا
عقیدت کی کروڑوں پتّیاں تھیں پرفشاں ہر سُو
ہجومِ کرمکِ شب تھا مرے آقا ﷺ کی چوکھٹ پر
دھنک کے رنگ لپٹے تھے نبی ﷺ کے آستانے سے

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ رنگ و نور کی برکھا برستی تھی
فضاؤں میں بھی جلتے تھے چراغِ مدحتِ سیّد
ہتھیلی پر لئے پھرتی تھی خوشبو نور کے سورج
درِ عالی پہ قسمت کے ستارے جھلملاتے تھے
تمناؤں کے لشکر خیمہ زن تھے مرغزاروں میں
کلی صلِّ علیٰ کی تھی سرِ شاخِ ادب روشن

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ قلزم آنسوؤں کے موجزن دیکھے
درِ آقا ﷺ پہ جاری تھی نزولِ رحمتِ باری
ہر اک منظر تھا روشن چشمِ تر کے آبگینوں میں
ہر اک سائل کے کشکولِ دعا می روشنی دیکھی
حروفِ آرزو پہنے ہوئے مدحت کے کنگن تھے
فصیلِ آرزو پر پھول کھلتے تھے عطاؤں کے

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ گلیوں میں حسیں بچوں کے جھرمٹ تھے
کتابوں میں معطر ساعتوں کی تتلیاں بھی تھیں
ہزاروں دل کھلونا بن گئے تھے ان کے ہاتھوں میں
مرے آقا ﷺ کے بچپن کی کھِلی تھیں ہر طرف کلیاں
طوافِ گنبدِ خضرا میں تھی مصروف بینائی
قلم خوش بخت بھی طاقِ غلامی میں فروزاں تھا

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ تیری نعت پڑھتے تھے ملائک بھی
کھڑی تھیں اَن گنت صدیاں درِ اقدس کے زینے پر
شعور و آگہی کے ہاتھ میں مشعل تھی حکمت کی
حروفِ مبہم و ناقص کو اذنِ حاضری کب تھا
قلم کے سر پہ دستارِ سخن رکھی تھی لفظوں نے
تری نعتیں تخیل کے لبوں پر پھول رکھتی تھیں

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ امت سر برہنہ آستاں پر تھی
ردائے غم میں لپٹا تھا ہجومِ زخمِ نادیدہ
چمن معمور تھا اشکِ رواں کے آبگینوں سے
قلم کی نوک پر سمٹی ہوئی تھیں خون کی بوندیں
مقدّر کے ستاروں کا وطن تھا برجِ مدحت میں
دیارِ نور و نکہت میں کرم کے پھول کھلتے تھے

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ محرابِ یقیں روشن تھی سجدوں سے
کتابِ دیدہ و دل کے ورق اشکوں سے بھیگے تھے
چمن آرائیوں میں خوشبوئیں مصروف تھیں کب سے
کھڑی تھی دست بستہ روشنی سرکار ﷺ کے در پر
حنا بندی تسلسل سے سخن زاروں میں جاری تھی
وہاں اذہان کی تہذیب ہوتی تھی سرِ محفل

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ آقا ﷺ کے درِ اقدس پہ منگتوں نے
سلاموں کی ہری ڈالی پہ اپنے نام لکھے تھے
خنک پانی کے بٹتے تھے کٹورے تشنہ کاموں میں
کسی کی التجاؤں پر گھنے پیڑوں کا سایہ تھا
گھنے پیڑوں پہ موسم گنبدِ خضرا کا روشن تھا
وہاں پر عدل کی میزان کی شاداب رُت دیکھی

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ تصویرِ ادب بن کر مدینے میں
کھڑے تھے ملتِ بے ربط کے ہارے ہوئے لشکر
کبوتر بے بسی کے التجاؤں میں کہیں گم تھے
کٹے تھے پر کہیں امن و اماں کی فاختاؤں کے
کہیں خوشبو کے آنچل میں تمناؤں کے آنسو تھے
کہیں چوکھٹ کو تھامے چشمِ تر فریاد کرتی تھی

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ ہر سائل کے کشکولِ گدائی میں
کرم کے اَن گِنت سکوں کی بارش کب سے جاری تھی
عطا کے سبز پانی میں پرندے خوش کلامی کے
اُنہی ﷺ کی نعت پڑھتے تھے اُنہی ﷺ کے گیت گاتے تھے
انہی ﷺ کے نام کی مالا تھی ہر لمحے کے ہاتھوں میں
اُنہی ﷺ کے ذکر پر مامور تھی کلیوں کی خاموشی

*

صبا آ کر مجھے احوال طیبہ کے بتائے گی
بتائے گی کہ رحمت کی گھٹائیں رقص کرتی تھیں
افق پر ایک میلہ سا لگا تھا سبز بوندوں کا
جمالِ گنبدِ خضرا سے روشن تھی فضا ساری
کرم کے پھول ہر زائر کے دامن پر پڑے دیکھے
مرادیں ہر کسی کی پھول بن بن کر اترتی تھیں
وہاں ہر خواب کو تعبیر ملتی تھی محبت کی