مجھے لے چل کبھی بختِ رسا طیبہ کی گلیوں میں- زر معتبر (1995)
مجھے لے چل کبھی بختِ رسا طیبہ کی گلیوں میں
مرے کہنہ مرض کی ہے دوا طیبہ کی گلیوں میں
ثنا کے پُھول لے کے میں بھی تو جاؤں مدینے میں
پڑھوں میں بھی تو نعتِ مصطفیٰؐ طیبہ کی گلیوں میں
دُرودوں کی بہارِ جاوداں اُترے مِرے لب پر
قلم میرا بھی ہو مدحت سرا طیبہ کی گلیوں میں
کبھی صادر حضوری کا بھی فرماں ہو مرے آقاؐ
کبھی اس بے نوا کو بھی بُلا طیبہ کی گلیوں میں
کروں میں حنا بندی گلستانِ سُخن تیری
غزل کہتی چلے صلِّ علیٰ طیبہ کی گلیوں میں
فرازِ عرش سے آجائیں گے حور و ملائک بھی
اگر اذنِ ثنا خوانی ملا طیبہ کی گلیوں میں
مرے سینے میں مچلے گا دلِ بیتاب رہ رہ کر
مِری آنکھوں کی برسے گی گھٹا طیبہ کی گلیوں میں
ہوا مرہم مِرے زخموں پہ رکھے گی محبت سے
سلیں گے خُود بخُود چاکِ قبا طیبہ کی گلیوں میں
مِرے کشکول میں سکّے گریں گے ملکِ رحمت کے
غلامی کی سند ہو گی عطا طیبہ کی گلیوں میں
فقیروں کو سکونِ قلب کا مژدہ سُنا دیجئے
ملے گی دولتِ فقر و غنا طیبہ کی گلیوں میں
مجھے اتنا بتا دو قافلے والو پسِ پردہ
نمازِ عشق کب ہو گی ادا طیبہ کی گلیوں میں
برستی ہیں فضاؤں سے کرم کی سرمدی کلیاں
لگائے جب بھی دیوانہ صدا طیبہ کی گلیوں میں
میں اپنے نام کی تختی کو دھو ڈالوں گا اشکوں سے
کروں گا بے خودی کی انتہا طیبہ کی گلیوں میں
ہوائے عجز ہی چلتی ہے گلزارِ مدینہ میں
پنپتا ہی نہیں سروِ اَنا طیبہ کی گلیوں میں
سلامی دے نہ کیوں خورشید جھک کر خاکِ انور کو
فروزاں ہیں کسی کے نقشِ پا طیبہ کی گلیوں میں
بڑی کثرت سے ہوتی ہے یہاں انوار کی بارش
خدا والوں کو ملتا ہے خدا طیبہ کی گلیوں میں
تجلی ریز ہیں دیوار و در شہرِ محبت کے
دھنک اطراف میں ہے پر کشا طیبہ کی گلیوں میں
قبولیت کی دستارِ فضیلت اُس کو ملتی ہے
فصیلِ لب سے جو نکلے دُعا طیبہ کی گلیوں میں
ریاضِ عشق و مستی کا میں اک کانٹا سہی لیکن
عطا ہو جائے پھولوں کی ردا طیبہ کی گلیوں میں