سفرِ مدینہ- روشنی یا نبی ﷺ (2018)
سفر مدینے کا میرے بچو! درود لمحوں کی داستاں ہے
قدم قدم پر ہجومِ اشکِ رواں کے سجدوں کی کہکشاں ہے
سڑک کے دونوں طرف ادب سے کھڑے ہیں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
چراغ، خوشبو، چنار، بادل کا ساتھ میرے بھی کارواں ہے
نظر اٹھا کے، بڑے ادب سے، فضا میں جس بھی طرف ہے دیکھا
اُدھر ہی گنبد ہے سبز روشن، اُدھر ہی آقا ﷺ کا آستاں ہے
برہنہ پا ہوں، برہنہ سر ہوں، مَیں رقص میں ہوں، مَیں وَجْد
میں ہوں
نبی ﷺ کے شہرِ کرم کی جانب، غلام اُن ﷺ کا رواں دواں ہے
بلندیوں پر ہے بخت میرا، مگر نگاہیں جھکی ہوئی ہیں
حضور ﷺ، حاضر یہ میرا دل ہے، حضور ﷺ، حاضر یہ میری جاں ہے
حضور ﷺ، آہوں نے سسکیوں نے، عجیب منظر بنا رکھا ہے
برستی آنکھوں کا ابرِ الفت، لہو کی بوندوں کا ترجماں ہے
ہوائیں صلِّ علیٰ کے گجرے اٹھا کے لائی ہیں ارضِ جاں سے
حضور ﷺ، میرے وطن کے کوہ و دمن کا منظر دھواں دھواں ہے
کرم کی رم جھم کی دلکشی ہے، عطا و بخشش کی روشنی ہے
خدا مدینے کے ہر مسافر پہ کس قدر آج مہرباں ہے
غروب ہوتا ہوا یہ سورج، چراغ کتنے جلا رہا ہے
عجب مدینے کی رہگذر ہے، عجب ہے موسم، عجب سماں ہے
سلام کرتے ہوئے جزیرے سے روشنی کے گذر رہے ہیں
درود پڑھتے ہوئے درختوں کے سبز پتوں کا سائباں ہے
گماں نہیں، یہ یقیں ہے مجھ کو، جھکا کے سر کو بڑے ادب سے
تمام حسن و جمال کون و مکاں کا راہوں میں پرفشاں ہے
بیاضِ نعتِ حضور ﷺ، سینے کی دھڑکنوں میں کھُلی ہوئی ہے
مری غلامی کی سر زمیں ہے، مری غلامی کا آسماں ہے
حضور ﷺ، اذنِ سلام بخشیں، غلام ابنِ غلام کو بھی
درود کے کیفِ زرفشاں میں، مرا قلم ہے مری زباں ہے
مدینے جاتی ہوئی ہواؤ! مجھے بھی نعتِ نبی ﷺ سناؤ
ہر ایک لمحہ جو ہمسفر ہے وہ قافلے کا بھی سارباں ہے
ریاضؔ جس کی ہتھیلیوں پر قلم کے سورج اُگے ہوئے ہیں
وہ قافلے سے بچھڑ گیا ہے، یہیں کہیں تھا، مگر کہاں ہے؟