استغاثہ- روشنی یا نبی ﷺ (2018)
(آقائے محتشم ﷺ کی عدالتِ عظمیٰ میں)
ہادیِ انس و جاں، اُمّتِ ناتواں
آپ ﷺ کے در پہ کب سے ہے نوحہ کناں
لٹ گئی ہے متاعِ ہنر کیا کریں
اے شفیع الامم ﷺ، رحمتِ دو جہاں
ہر ورق گم ہے تاریخ کی گرد میں
اشکِ تر سے لکھی جائے گی داستاں
بال و پر نوچ ڈالے گئے شاخ پر
تنکا تنکا ہوا آج بھی آشیاں
سر برہنہ کھڑے ہیں کڑی دھوپ میں
اپنے سر پر نہیں، یانبی ﷺ، سائباں
روح پر برچھیاں ہیں شبِ کرب کی
خوف میں غَرْق ہے دامنِ ارضِ جاں
عَصْرِ نو کی نئی کربلاؤں میں ہیں
سج رہے ہیں نئے مقتلِ کوفیاں
امن کی فاختہ کب فضاؤں میں ہے
عافیت کا نہیں کوئی نام و نشاں
بے بسی کی کہانی کہاں تک کہیں
زخم خوردہ ہے لوح و قلم کی زباں
اجنبی اجنبی لوگ ہیں، یانبی ﷺ
کھویا کھویا سا ہے عشق کا کارواں
حشر سا حشر برپا ہے چاروں طرف
ارضِ کشمیر جلتا ہوا زخمِ جاں
آگ ہے خون ہے، خون ہے آگ ہے
کسمپرسی کے عالم میں ہیں بستیاں
بزدلی کی کہانی سنانے لگیں
کلکِ مدحت سے لپٹی ہوئی سسکیاں
ایک جبرِ مسلسل میں ہیں امتی
آشیانوں کے سر پر ہے برقِ تپاں
تشنہ لب کانپتے ہیں، رسولِ امیں ﷺ !
گفتگو میں بھی ہیں خوف کی کرچیاں
قتل گاہوں سے چڑیاں بھی لوٹی نہیں
ہر قدم گھات میں سرخ ہیں آندھیاں
جام ٹوٹے ہوئے، ہونٹ جلتے ہوئے
سہما سہما سا لگتا ہے پیرِ مغاں
موج در موج لپٹے ہوئے ہیں کفن
پھٹ چکے کشتیوں کے کھلے بادباں
کون روکے گا دشمن کی یلغار کو
رقص میں ہے قبیلے کا ہر نوجواں
عدل کی کوئی زنجیر ہلتی نہیں
قَصْرِ شاہی میں بھی جھوٹ ہے حکمراں
خون تھوکے نہ خلقت تو پھر کیا کرے
پرچمِ عزمِ نو گر گیا ناگہاں
امتِ ناتواں کس طرف جائے گی
رہ گیا وہ بھی ٹوٹا ہوا پائیداں
مکتبِ زندگی ہے مقفّل ہوا
بہہ گئیں سیلِ غم میں سبھی تختیاں
اہلِ شر نے ہواؤں کو گروی رکھا
سانس لینے پہ، آقا ﷺ، ہیں پابندیاں
نفسا نفسی کے عالم میں ہے ہر کوئی
روزِ مَحشر کا ہونے لگا ہے گماں
گم ہوئے پانیوں میں جزیرے کئی
ناخداؤں سے محروم ہیں کشتیاں
دشت و صحرا میں جائیں کدھر سیدی ﷺ !
تنگ ہے یہ زمیں، تنگ ہے آسماں
عظمتِ عہدِ رفتہ کہاں کھو گئی
تازیانوں کی بارش ہوئی ہے یہاں
ہم کہ مجرم ہیں، یامصطفیٰ ﷺ، آپ ﷺ کے
ہم صفائی میں دیں، یانبی ﷺ، کیا بیاں
خوشبوئیں ماتمی اوڑھنی اوڑھ لیں
گلفروشی پہ مامور ہے باغباں
یانبی ﷺ، جو مسلط ہے احوال پر
وہ سمجھتا نہیں دھڑکنوں کی زباں
کیسے سورج ہتھیلی پہ رکھیں گے ہم
ہر طرف بے بسی، بے حسی کا دھواں
جس کے لب پر ہے دشمن کی حمد و ثنا
کیا ہمارا حقیقی ہے وہ ترجماں
آپ ﷺ کے در پر آئے ہیں روتے ہوئے
یا امیرِ امم ﷺ، یا شہِ مرسلاں ﷺ
یانبی ﷺ کب تلک، یانبی ﷺ کب تلک
ساحلوں سے مسلسل بڑھیں دوریاں
عفو و رحمت کی بادِ خنک چل پڑے
بند ہے اِن دنوں عافیت کی دکاں
المدد یارسولِ خدا، المدد
خونِ مسلم چلا جائے گا رائیگاں
فتنہ و شر کے بادل چھٹیں، یانبی ﷺ
امن کی فاختائیں رہیں زرفشاں
حوصلوں کے سمندر عطا کیجئے
بزدلی کب سے ہے عشق کی پاسباں
کامرانی کے پرچم کھُلیں، یانبی ﷺ
چومنے نقشِ پا آئے پھر کہکشاں
اب چلے پھر مراسم کی ٹھنڈی ہوا
ترجمانِ اخوّت ہوں آبادیاں
آپ ﷺ کے در پہ نظریں بچھائے ہوئے
منتظر کب سے حوّا کی ہیں بیٹیاں
یارسولِ ﷺ خدا، یاشہِ انبیاء
بتکدوں میں کوئی آج بھی دے اذاں
نعت میں بھی قلم بانٹنے ہے لگا
تلخیاں، کرچیاں، ہچکیاں، سسکیاں
استغاثہ، غلاموں کا، دربار میں
پیش کرنے چلے میرے اشکِ رواں
کاش ایسا بھی ہو یارسولِ ﷺ خدا
بے ضمیری کی اڑنے لگیں دھجیاں
امتِ مسلمہ کا تو اک فرد ہے
تیرے ہونٹوں پہ ٹھہری رہے گی فغاں