آسماں شہرِ محمدؐ کا نظر میں چاہئے- زر معتبر (1995)
آسماں شہرِ محمدؐ کا نظر میں چاہیے
ہر پرندہ میرے لفظوں کا سفر میں چاہیے
قافلے کی گرد سے ہر شب تراشوں پیرہن
آشیاں اپنا غبارِ رہگذر میں چاہیے
ہر گھڑی چُنتا رہوں میں بھی دُرودوں کے گلاب
ذوقِ نعتِ مصطفیٰؐ شاخِ ہنر میں چاہیے
اُڑ کے پہنچوں سبز گنبد کی فضاؤں میں کبھی
اتنی طاقت تو کم از کم بال و پر میں چاہیے
دِن نکل آیا ہے لیکن ہر طرف ہے تیرگی
جود و رحمت کی گھٹا طشتِ سحر میں چاہیے
ساحلِ اُمّید پر پہنچیں گی اپنی کشتیاں
بادباں اسمِ محمدؐ کا بھنور میں چاہیے
ایک پتھر ہی کہاں جائے گا قیمت کچھ بھی ہو
عکس کوئی خاکِ طیبہ کا گہر میں چاہیے
غیر ممکن ہے نہ ہو مشکور ہر حرفِ طلب
نقشِ پا اُنؐ کا دعائے بے اثر میں چاہیے
جبر و استبداد موسم کا سہے کب تک کوئی
کوئی اُترن پاؤں کی دستِ شجر میں چاہیے
میرے بچوں کو وراثت میں ملے حُبِّ رسولؐ
یہ اثاثہ بعد میرے بھی تو گھر میں چاہیے
جسم کی دیوار گرتی ہے تو گر جائے ریاضؔ
خلعتِ دیدار عُمرِ مختصر میں چاہیے