ہر ذرے کی تزئین ستاروں سے ہوئی ہے- نصابِ غلامی (2019)
ہر ذرّے کی تزئین ستاروں سے ہوئی ہے
پس منظرِ فردوس میں طیبہ کی گلی ہے
پروانہ حضوری کا صبا لائے گی اِمشب
یہ کیا کہ مرے گھر کی فضا مہکی ہوئی ہے
اب کوئی جزیرہ بھی نظر آتا نہیں ہے
کشتی مری امواجِ حوادث میں گھری ہے
آقا جی ﷺ ، وہی دھوکے میں امت کی قیادت
اک لاش سرِ راہگذر کب سے پڑی ہے
مَیں زندہ حقائق سے چراتا رہا نظریں
محرومی کی دلدل میں مری نسل کھڑی ہے
بھیگے ہوئے، سرکار، مناظر ہیں ادب کے
برسات مرے اشکوں کی کاغذ پہ سجی ہے
ہر پھول کی خوشبو کو رہن رکھنا پڑے گا
کچھ ایسی ہوا صحنِ گلستاں میں چلی ہے
آبا کے کفن بیچنے والوں ہی کے ہاتھوں
تیمور کی غیرت سرِ بازار بکی ہے
کب ہو گا سویرا مرے آنگن میں نبی جی ﷺ
ہر شمع دریچوں میں سرِ شام بجھی ہے
تاریخ کی بے داغ عدالت میں یقیناً
ہر جرمِ ضعیفی کی سزا ہم کو ملی ہے
ہم لوگ غلامی پہ رضامند ہیں، آقا ﷺ
محکومی کی قیمت ہمیں ڈالر میں ملی ہے
خوشبو صفِ ماتم سرِ گلشن ہے بچھاتی
پیراہنِ شبنم میں جو ہر ایک کلی ہے
سورج سوا نیزے پہ مصائب کا ہے آیا
محشر کی گھڑی ہے، یہی محشر کی گھڑی ہے
رکھ دی ہیں ریاضؔ، آپ ﷺ کی دہلیز پہ آنکھیں
اشکوں کی تپش نعت کی صورت میں ڈھلی ہے