آنکھیں چھلک پڑیں مرے در پر کھڑے کھڑے- نصابِ غلامی (2019)
آنکھیں چھلک پڑیں مرے در پر کھڑے کھڑے
دیدار ہو گیا مجھے اکثر کھڑے کھڑے
چاہا ابھی تھا اسمِ محمد ﷺ رقم کروں
دنیا ہوئی ہے میری مصوَّر کھڑے کھڑے
صدیاں گذر گئی ہیں مواجہے کے سامنے
ڈوبا رہا ہے کیف میں منظر کھڑے کھڑے
دامانِ آرزو کبھی خالی نہیں رہا
اترے کرم کے سینکڑوں لشکر کھڑے کھڑے
عفو و عطا کے سرخ گلابوں سے بھر گیا
مجھ سے گناہ گار کا دفتر کھڑے کھڑے
خوشبو طوافِ کلکِ ثنا سے تھکی نہیں
کیا لب ہوئے ہیں اس کے معطر کھڑے کھڑے
مجھ کو شفاعتوں کی ردا نے چھپا لیا
دنیا بدل گئی سرِ محشر کھڑے کھڑے
قدموں کو چومنے کا صلہ یوں دیا گیا
جاگا ریاضؔ میرا مقدّر کھڑے کھڑے