بستی میں خوب ابرِ کرم کی لگے جھڑی- نصابِ غلامی (2019)
بستی میں خوب ابرِ کرم کی لگے جھڑی
بِکنے لگے ہیں گھر کے اثاثے بھی یانبی ﷺ
بچے اداس عید کے دن ہیں کہاں چھپوں
لیتا ہوں سسکیاں مرے آقا ﷺ دبی دبی
لاؤں جگر بلالؓ کا آقا ﷺ کہاں سے مَیں
زنجیر میرے پاؤں کی میری ہے بزدلی
بادل ہجوم کر کے اتر آئے ہیں، حضور ﷺ
لیکن لباس میری بدن پر ہے کاغذی
صبحیں طلوع ہوں مرے آنگن میں صد ہزار
ٹل جائے رات سر سے مسلسل عذاب کی
بچوں کی ہوں کتاب میں محنت کی تتلیاں
ہر لفظ میں چراغ رکھے دستِ آگہی
تاریکیاں ہیں عَصْرِ جدیدہ کا پیرہن
ہر عَصْر لے چراغِ مدینہ سے روشنی
محرومیوں کی راکھ میں بکھرے ہوئے سراب
مجھ کو حصارِ خوف میں رکھیں گے آج بھی
اپنے ہی دکھ سمیٹتا رہتا ہوں نعت میں
مجھ کو ملی ہے حرفِ تسلی کی چاندنی
دیتا ہے ہر کسی کو اذیّت نفس نفس
سفاّک اِس قدر بھی کیا ہوتا ہے آدمی
سر پر کھڑی ہیں کالی گھٹاؤں کے قافلے
سیلِ رواں میں کیا مری ٹھہرے گی جھونپڑی
آنگن میں اضطراب کا موسم ہے خیمہ زن
مجھے کو لگی ہے کب سے مصائب کی ہتھکڑی
کامل یقین رکھتے ہیں دیوار و در، حضور ﷺ
رحمت ضرور ایک دن آئے گی آپ ﷺ کی
آقا ﷺ ، مرا بھی رزق مہاجن ہیں لے گئے
آقا ﷺ ، ریاضؔ نوحہ کناں ہے گلی گلی