صدیوں سے مقفل ہے ماضی کی درخشانی- نصابِ غلامی (2019)
صدیوں سے مقفّل ہے ماضی کی درخشانی
ہر سَمْت نبی جی ﷺ ، ہے ویرانی سی ویرانی
ماتھے پہ ندامت کا اک قطرہ نہیں، آقا ﷺ
کب مردہ ضمیروں میں زندہ ہے پشیمانی
مجرم ہے، عدالت میں کب سے ہے کھڑی امت
ہونٹوں پہ ہے خاموشی، آنکھوں میں ہے حیرانی
رسوائی ہی رسوائی اُمّت کا مقدّر ہے
دامانِ مسلماں میں ایثار نہ قربانی
ہم زندہ مسائل کی آغوش میں زندہ ہیں
کرتوت ہیں ابلیسی، اعمال ہیں شیطانی
ہر سَمْت مصائب کی دیواریں ہی دیواریں
کفار کی دنیا میں آسانی ہی آسانی
تاروں پہ کمندیں کیا ڈالیں گے مرے بچے
ہم قعرِ مذِلّت میں پسپائی کے ہیں بانی
افکار کی فصلوں کو پانی ہی نہیں ملتا
کیا عرض کروں، آقا ﷺ ، ہر خطہ ہے بارانی
مَیں نعت نگاری کے دامن میں بھی رکھتا ہوں
دکھ اپنے قبیلے کے، ہر ذاتی پریشانی
ہمدرد مرے بن کر آئے ہیں جو مقتل میں
خارش زدہ چہروں پر ہے مکر کی ارزانی
غیرت کا نہیں پانی سردار کی آنکھوں میں
کیا اس کا بگاڑے گی میری یہ سخن دانی
دولت کا مَیں بھوکا ہوں، دولت کا مَیں پیاسا ہوں
ایمان ہے کیا میرا، کیا میری مسلمانی
جب نعتِ نبی ﷺ اترے انوار کے جھرمٹ میں
جذباتِ عقیدت کی دل میں ہو فراوانی
لمحاتِ مسرّت کی، آقا جی ﷺ ، بشارت دیں
سرکار ﷺ رکے اک دن افلاس کی طغیانی
عامر کی شہادت سے جذبات ہوئے زندہ
ہم سب کو عطا کر دیں وہ غیرتِ ایمانی
کنگن ہوں غلامی کے ہر ایک کلائی میں
اُس در کی ملے میرے بچوں کو بھی دربانی
اک حرفِ دعا لب پر رکھتا ہے ریاضؔ، آقا ﷺ
قسمت میں خدا لکھے اس کے بھی ثنا خوانی