حضوری کی بہار سرمدی میں ہو سحر میری- نصابِ غلامی (2019)
حضوری کی بہارِ سرمدی میں ہو سحر میری
کتابِ آرزو بھی کس قدر ہے مختصر میری
طوافِ کعبہ سے فرصت ملے نہ سارا دن مجھ کو
خدایا، رات ہو طیبہ کی گلیوں میں بسر میری
کسی دن خود گھٹائیں چھاگلیں بھر بھر کے لائیں گی
رہے گی کب تلک محروم شاخِ بے ثمر میری
مَیں کیوں احسان لوں بادِ صبا! تیرے گلستاں کا
مدینے کی طرف جاتی ہے جب یہ رہگذر میری
صراطِ عشق میں اکثر لگی ٹھوکر مسافر کو
حکایت ہے کہاں اتنی بھی، لوگو، معتبر میری
یہی شامِ حوادث میں دلاسہ مجھ کو دیتی ہے
سلامت، یا خدا، رکھنا ہمیشہ چشمِ تر میری
تلاشوں آشیاں شہرِ نبی ﷺ میں مستقل اپنا
رہے گی ہمسفر کب تک متاعِ بال و پر میری
جوارِ گنبدِ خضرا میں کب سے ہیں مری آنکھیں
وہاں رہتی ہے تصویرِ ادب بن کر نظر میری
ہزاروں تتلیاں جگنو بھی خود حرفِ ستائش تھے
ہجومِ ماہ و انجم میں تھی کٹیا رات بھر میری
ریاضؔ اپنے گریباں سے اسے کیسے جدا کر دوں
شریکِ آرزو ہے آج بھی گردِ سفر میری