خود کو ورق پہ شاعرِ ختم الرسل لکھوں- نصابِ غلامی (2019)
خود کو ورق پہ شاعرِ ختم الرسل لکھوں
جب تک جیؤں مَیں نعت کے انوار میں جیؤں
سب حال جانتے ہیں وہ اپنے غلام کا
آقا ﷺ کے روبرو مَیں کہوں بھی تو کیا کہوں
ہر ایک لفظ میری لغت کا ہے ملتجی
شاخِ ثنائے سرورِ کونین ﷺ پر کھِلوں
میری دعا کہے گی فرشتو! فلک کی سَمت
دہلیزِ مصطفیٰ ﷺ کو ذرا چوم کر چلوں
خلدِ نبی ﷺ میں گنبدِ خضرا کے سامنے
اپنی مَیں نعت بادِ صبا سے کبھی سنوں
دل کو چھپا دوں قریۂ جنت کے آس پاس
آنکھوں کو طاقِ روضۂ سرکار ﷺ میں رکھوں
ہونٹوں پہ ہوں درود کے گجرے سجے ہوئے
نعتِ حضور ﷺ پڑھتے ہوئے حشر میں اٹھوں
جی چاہتا ہے حاضری سے قبل، ہمسفر!
ہر زائرِ رسول ﷺ کے قدموں تلے بچھوں
کتنی عجیب ہے یہ تمنا کہ روزِ حشر
اپنا مَیں نام نعت کے اخبار میں پڑھوں
طیبہ میں التجا ہے یہ ابن الحمید کی
مَیں اشک بن کے روزنِ دیوار میں جلوں
دیوارِ مصطفیٰ ﷺ سے مَیں محشر کے بعد بھی
تصویر احترام کی بن کر لگا کروں
ہر آرزو ہے تشنۂ تکمیل، یاخدا!
تیرے جہاں میں خواب نہ دیکھوں تو کیا کروں
احباب مجھ کو ڈھونڈنے نکلیں تو مَیں ریاضؔ
گرد و غبارِ راہِ نبی ﷺ میں انہیں ملوں