کرم کی در گذر کی آگہی کی انتہا لکھنا- زر معتبر (1995)
کرم کی، درگزر کی، آگہی کی انتہا لکھنا
زباں، تو مصطفیٰ کہنا، قلم، تو مرحبا لکھنا
نظامِ دیدہ و دل سے لہو کی روشنی لے کر
انہیں نورِ ازل، نورِ ابد، نورِ خُدا لکھنا
وہ محشر میں بھی ہر لمحے کے سر کا سائباں ٹھہرے
انہیں کونین کا جھومر، انہیں شمس الضحیٰ لکھنا
نہیں ہے ڈوبنا جس کو کسی گہرے سمندر میں
اُسی سورج کی کرنوں کو جوازِ ارتقا لکھنا
جو گم ہو عشقِ احمدؐ میں نہیں اُس کے لئے ممکن
کتابِ زندگی کے ہر ورق کا حاشیہ لکھنا
مٹا کر اسمِ مبہم میرے دروازے کی تختی سے
کبھی اے کاتبِ قدرت غلامِ مصطفیٰ لکھنا
میں اُنؐ کا ہوں تو پھر کیسی ہوس یہ مال و دولت کی
تمنّا کی جبیں پر کیا زرِ شہرِ انا لکھنا
نہ کوئی پاس ناموسِ رسالت کا رہے باقی
سرِ لوحِ بدن کیا اِس طرح بھی انخلا لکھنا
ابھی اشکوں سے کر لینا اُجالا شہرِ ظلمت میں
پسِ مرگِ چراغِ شب سحر ہے پرکشا لکھنا
یہ کب تک موسمِ امروز و فردا کی ثنا خوانی
یہ کب تک روز و شب اہلِ چمن کا مرثیہ لکھنا
غلامانِ محمدؐ کا حصارِ آہنی ہے یہ
وطن کے واسطے جتنی بھی ممکن ہو دُعا لکھنا
میں اس منصب کے لائق تھا کہاں اے رحمت باری
کہاں اِک بے نوا شاعر، کہاں اُنؐ کی ثنا لکھنا
شفاعت کا سرِ محشر کوئی منکر ہے کب لیکن
ریاضؔ اپنے گناہوں پر بھی کوئی تبصرہ لکھنا