بہت افسردہ ہیں شام و سحر بھی یارسول اﷲ- نصابِ غلامی (2019)
بہت افسردہ ہیں شام و سحر بھی یارسول اﷲ
ہوائے سبز کا جھونکا اِدھر بھی یارسول اﷲ
افق پر دیکھتی رہتی ہے رحمت کے فرشتوں کو
اٹھا کر ہاتھ شاخِ بے ثمر بھی یارسول اﷲ
کبھی کرب و بلا کی ریت پر ابرِ کرم برسے
کبھی ہو عہدِ گریہ مختصر بھی یارسول اﷲ
غلامِ کمتریں کو روند ڈالا ہے مسائل نے
مدینے کا ملے اذنِ سفر بھی یارسول اﷲ
بہت سے گنجلک حلقے مرے آنگن میں در آئے
ہو ہر سازش عدو کی بے اثر بھی یارسول اﷲ
جزیرے خشک سالی کے دئیے ہیں ناخداؤں نے
پکارے آپ ﷺ کو میرا کھنڈر بھی یارسول اﷲ
خدا کے واسطے میری غریبی کا بھرم رکھ لیں
ہوئی ہے خشک اب تو چشمِ تر بھی یارسول اﷲ
زمیں کے پادشاہوں نے ہدف ٹھہرا لیا مجھ کو
مرے حالِ پریشاں پر نظر بھی یارسول اﷲ
دکھائی کچھ نہیں دیتا مجھے شامِ حوادث میں
نہیں پہچانتی یہ رہگذر بھی یارسول اﷲ
قلم کے حیطۂ ادراک میں حرفِ دعا اترے
زباں پر ہوں حروفِ معتبر بھی یارسول اﷲ
بجز شہرِ خنک جائے اماں ملتی نہیں مجھ کو
تعاقب میں چلے آتے ہیں ڈر بھی یارسول اﷲ
کوئی امن و اماں کے واسطے نکلے تو کیا نکلے
حصارِ خوف میں ہے ہر بشر بھی یارسول اﷲ
تلاشِ رزق میں اڑنے کی حسرت ہے ابھی باقی
اگرچہ کٹ چکے ہیں بال و پر بھی یارسول اﷲ
دہائی دے رہا ہے آپ ﷺ کے اسمِ گرامی کی
درِ اقدس پہ مجھ سا بے ہنر بھی یارسول اﷲ
ریاضِؔ بے نوا مقروض ہے کب سے مہاجن کا
گریں کشکول میں لاکھوں گہر بھی یارسول اﷲ