کب فسانوں میں ہیں، کب گمانوں میں ہیں- نصابِ غلامی (2019)
کب فسانوں میں ہیں، کب گمانوں میں ہیں
ہم تو مدحت کے تازہ جہانوں میں ہیں
ہر صدی اُن ﷺ کی چوکھٹ پہ ہے سر نگوں
آج بھی ہم انہی ﷺ کے زمانوں میں ہیں
امنِ عالم کے داعی ہمارے نبی ﷺ
ہم محبت بھری داستانوں میں ہیں
سَمْتِ طیبہ درودوں کے گجرے لیے
شہرِ دل کے پرندے اڑانوں میں ہیں
لوگ، زندہ نبی ﷺ کے جو قائل نہیں
اصل میں خود وہی مردہ خانوں میں ہیں
آفتابِ قیامت ہے سر پہ تو کیا
جاں نثار آپ ﷺ کے سائبانوں میں ہیں
اس سے بڑھ کر کوئی خوش نصیبی بھی ہے!
اُن ﷺ کے منگتوں کے ہم ترجمانوں میں ہیں
تجھ کو معلوم ہے شہریارِ غزل
نعت گوئی کے ہم آسمانوں میں ہیں
در حقیقت غلامانِ آلِ نبی ﷺ
شاخِ دل پر بنے آشیانوں میں ہیں
یارسولِ خدا! کیسا اندھیر ہے
لوگ خود بھی مقفّل خزانوں میں ہیں
یا نبی جی ﷺ ، کسی نے بھی سوچا نہیں
منقسم آج ہم کتنے خانوں میں ہیں
امتِ پر شکستہ کے شام و سحر
کھردری، سخت کالی چٹانوں میں ہیں
جن کے دیوار و در سب کے سب کاغذی
چھت ٹپکتے ہوئے اُن مکانوں میں ہیں
ہم قلم چپ ہیں، کس کس کا نوحہ لکھیں
دُور طیبہ سے، کن مہربانوں میں ہیں