توفیقِ نعتِ سرورِ دینِ صمد ملے- زر معتبر (1995)
توفیقِ نعتِ سرورِ دینِ صمد ملے
خوش بختیوں کا حرفِ دُعا کو عدد ملے
میرے لبوں پہ کِھلتے رہیں سرمدی گلاب
نطق و بیاں کو اذنِ ثنا کی رسد ملے
نخلِ مراد پر بھی ہوں رحمت کی باشیں
میری زمیں کو بھی گلِ تر کا سَبَد ملے
میں بھی قدم قدم پہ جلاؤں نئے چراغ
اُس رہگذارِ شوق سے میری بھی حد ملے
بے آسرا پڑا ہوں سرِ شاخِ آرزو
مجھ کو حضورِ سیّدِ والا مدد ملے
سہما ہوا ہوں خوف کے آنگن میں شام سے
مولاؐ، شبِ سیاہ میں قلبِ اسد ملے
میں بھی غلام زادہ ہوں آقائے دو جہاں
اِس افتخار کی مجھے اب تو سند ملے
اے ارتباطِ روح و بدن، اے مرے رسولؐ
رخصت جہاں سے ہوں تو کشادہ لحد ملے
میت پہ میری کاش وہ ڈالیں ردا ریاضؔ
مجھ کو کفن سکون کا روزِ ابد ملے