متاعِ کربلا- شعورِ کربلا (2018)
حسین تیری شہادت کی شامِ پُرنم سے
چراغ مانگنے نکلی ہے نسل آدم کی
ترے لہو کی حرارت سے سرد خانوں میں
رمق حیات کی قصرِ بدن میں باقی ہے
قضا کے خیمۂ شب میں رکھا ہوا ہے ابھی
یزیدیت کے جنازے کو کون کندھا دے
سپاہِ جبر کو قبریں نصیب کیا ہوتیں
سپاہِ جبر کے ننگے سروں پہ ماتم ہو
حسینؓ : صبر و شجاعت کی آخری قندیل
حسینؓ : ذوقِ شہادت کی سرخ رو تحریر
حسینؓ : عدل و مساوات کے علم بردار
حقوقِ آدم و حوا کا پاسباں ہے حسینؓ
حسینؓ ابنِ علیؓ کے لہو کا ہر قطرہ
ضمیرِ آدم و حوا کی روشنی کا ہدف
لہو حسینؓ کا روشن ہے ہر دریچے میں
غبارِ کرب و بلا میں ندامتوں کا ہجوم
کفن لپیٹ کے اپنے بدن سے نکلا تھا
متاعِ کرب و بلا کی تلاش تھی اُس کو
متاعِ کرب و بلا کی تلاش ہے اُس کو
الٹ رہا ہے جمی ریت کے ورق رنگیں
یہ کیا کہ میری زمیں کے ہر ایک قریے میں
بدل گیا ہے نئے موسموں کا ہر تیور
دئیے ہیں ہاتھ ہوا نے قضا کے ہاتھوں میں
کہ آج جبر کے دامِ فریب میں ہے بشر
اداس نسل کھڑی ہے زمینِ تشنہ پر
ابھی فرات پہ پہرے یزیدیوں کے ہیں
تمیز، باطل و حق میں ہوا کرے کیسے
تمام لوگ مفادات ہی کے قیدی ہیں
قضا کے خیمۂ شب میں کئی جنازے ہیں
غبارِ کرب و بلا میں ندامتوں کا ہجوم
غضب خدا کا دکھائی نہیں دیا مجھ کو
ہوا چراغ لہو کے بجھانے آتی ہے
یزیدیوں کے جنازے اٹھانے آتی ہے