ردائے شامِ تذبذب بکھر بکھر جائے- کتابِ التجا (2018)
مرے خدا!
مرے حاجت روا
مر ے خالق
بساطِ ذہن کی پگڈنڈیوں پہ اترا ہے
عجیب موسمِ بے نور بے صدا اب کے
عجیب مخمصے میں ہے ہجوم سوچوں کا
عجیب رت سی ہے
چھائی ہوئی گلستاں پر
حصارِ خوفِ ندامت میں ہیں مری آنکھیں
مرے خدا!
مرے حاجت روا
مرے مالک!
کھڑا ہے آئینہ خانے میں عکس مبہم سا
عجیب شامِ تذبذب ہے
میر ی پلکوں پر
ہوا کے ہاتھ میں
نقش و نگارِ ہستی ہیں
ہوائے گرد نے
نقش و نگارِ ہستی کو
دیے جلانے کا اب تک ہنر نہیں بخشا
ہر ایک سمت ہے
امواجِ مضطرب کا جلوس
یقیں کے پھول کھلاتی ہوئی ہوا نے کہا
خداسے فصلِ گل و لالہ کی ردا مانگو
مرے خدا
مرے حاجت روا
مرے مولا!
حصارِ خوف میں اک ایک میرا لمحہ ہے
برہنہ سر ہے مری تشنہ آرزوؤں کا
محیط چادرِ رحمت ہو میرے آنگن پر
مجھے حضور ﷺ کے نعلین کے تصدق میں
حصارِ خوف سے یارب، نجات یوں دینا
غبارِ حرفِ ندامت کے زرد ہاتھوں میں
ردائے شامِ تذبذب بکھر بکھر جائے