تشنہ ہونٹوں پر لکھا ہے مَیں نے بھی حرفِ دعا- کتابِ التجا (2018)

زندگی اور موت کی ہوں کشمکش میں مبتلا
مشکلیں آسان کر دے اے مرے مشکل کشا

زندگی کی بھیک دے مجھ کو مرے ربِّ کریم!
بن کے آیا ہوں مَیں تیرے در پہ حرفِ التجا

جھوٹ تخت و تاج کا وارث بنا ہے ان دنوں
قریہ قریہ چل رہی ہے شامِ غربت کی ہوا

اپنی ہر مخلوق کا روزی رساں تو ہی تو ہے
کون ہے تیرے سوا میرے خدا، حاجت روا

عدل کی زنجیر کو کھانے لگی دیمک یہاں
ٹوٹ جائیں اب منافق ساعتوں کے دست و پا

فیصلہ کرنا نہیں ممکن رہا شر کے خلاف
اس قدر مجرم عدالت میں ہوئے ہیں لب کشا

میرے آنگن میں اگا خوش رنگ پھولوں کی قطار
تشنہ ہونٹوں پر لکھا ہے مَیں نے بھی حرفِ دعا

ہر قدم زندہ رہے میرے چراغوں کا وجود
یا خدا! ارضِ وطن کی مانگ میں تارے سجا

قتل گاہوں کو سجانا شوق ہے ان کا مگر
رہنماؤں کو ملے، یارب! شعورِ کربلا

تیرگی سارے زمانوں کی خریدی جا چکی
یا خدا! میری ہتھیلی پر نئے سورج اُگا

مَیں ترے محبوبؐ کی توصیف ہی کرتا رہوں
یا خدا! مہکا رہے میرا چمن زارِ ثنا

آج بھی جمہور کی آواز پر اترا عذاب
آج بھی مسموم کر ڈالی گئی گھر کی فضا

بے حیائی مسندِ تہذیب پر قابض ہے آج
دخترِ حوّا کی آنکھوں میں نہیں شرم و حیا

پیکرِ جود و سخا ہیں، پیکرِ لطف و کرم
یا خدا! صدقہ ملے مجھ کو شہِ لولاکؐ کا

آج بھی ہر ہر قدم پر ہے مکافاتِ عمل
آج ہے نیلام گھر میں بادشاہوں کی انا

خود پسندی کا ضمیمہ ہے انا کی تیرگی
آتشِ نمرود میں نمرودیت کو بھی گرا

شام بستی کی منڈیروں سے اٹھاتی ہے چراغ
قافلے والے بھلا بیٹھیں نہ اپنا راستہ

جب بھی چاہوں مَیں ترے در پر پہنچ جایا کروں
میرے مولا! میرے اندر سے نیا رستہ بنا

چاند تاروں پر کمندیں ڈالتے کیسے، ریاضؔ
بند کر رکھی ہے ہم نے خود کتابِ اِرتقا