گنجِ ایماں میں نہیں فقر و غنا کے سکّے- زر معتبر (1995)
گنجِ ایماں میں نہیں فقر و غنا کے سکّے
کیا کروں لے کے ابھی حرف و صدا کے سکّے
لعل و گوہر ہیں ترےؐ نقشِ قدم کی اُترن
دولتِ ہر دو جہاں ملکِ سخا کے سکّے
میں مقیّد ہوں زر و سیم کے بت خانے میں
میرے کشکول میں بھی خوفِ خدا کے سکّے
چشمِ پُر آب میں ہیں بحرِ عقیدت کے صدف
دل کی اقلیم میں رائج ہیں حرا کے سکّے
چند سکّوں کا اثاثہ ہے مری آنکھوں میں
حبیب و داماں میں کہاں حمد و ثنا کے سکّے
حرفِ شکوہ مرے ہونٹوں پہ سدا رہتا ہے
کب سے نایاب ہُوئے صبر ورضا کے سکّے
نقش پانی پہ بنایا ہے ہوا نے جیسے
درج ہیں میرے مقدّر میں فنا کے سکّے
خشک سالی ہے مرے جسم کی کھیتی کا غبار،
حوضِ کوثر سے ملیں، آبِ بقا کے سکّے
آرزو ہے کہ مدینے میں گدا بن کے رہوں
میرے ہر لفظ میں ہوں میری انا کے سکّے
مانگنے والے کا دامن ہی دریدہ ہو گا
ورنہ کچھ کم تو نہ تھے جو د و عطا کے سکّے
نقدِ جاں لے کے کھڑا ہوں میں سخی کے درپر
خاکِ مردہ پہ پڑیں خاکِ شفا کے سکّے
میرا سرمایہ غلامی کا یہ تمغہ ہَے ریاضؔ
قیمتی کتنے ہیں یہ میری اَنا کے سکّے