نصابِ عدل کے زندہ قلمدانوں میں زندہ رکھ- کتابِ التجا (2018)
مجھے ذکرِ پیمبرؐ کے گلستانوں میں زندہ رکھ
حروفِ نعت کے روشن شبستانوں میں زندہ رکھ
مجھے اڑنا سکھا بطحا کی وادی کی فضاؤں میں
مدینے کے گلی کوچوں کے دیوانوں میں زندہ رکھ
مَیں پابندِ سلاسل ہوں، پسِ زنداں مرے مولا!
نصابِ عدل کے زندہ قلمدانوں میں زندہ رکھ
محیطِ جان و دل شامِ غریباں کی ہے تاریکی
یدِ بیضا کے سورج کو گریبانوں میں زندہ رکھ
صراطِ عشق سے بھٹکے ہوؤں کو دے ابھی مہلت
قیامِ حشر سے پہلے بھی انسانوں کو زندہ رکھ
اگرچہ امتِ بے بس بڑی نادان ہے، لیکن
حصارِ ابرِ رحمت میں مسلمانوں کو زندہ رکھ
طنابیں ان کے خیموں کی ہوا نے کاٹ ڈالی ہیں
مرے بچّوں کے مستقبل کے ارمانوں کو زندہ رکھ
رعایا کے لبِ تشنہ کی جو شدت کو بھی سمجھیں
خداوندا! زمیں پر ایسے سلطانوں کو زندہ رکھ
سرور و کیف میں ڈوبی رہیں ہر شخص کی آنکھیں
خدایا! اس برس بھی میرے میخانوں کو زندہ رکھ
ثنا کے مرغزاروں میں ادب سے روشنی اترے
خنک آبِ دعا کے سبز پیمانوں کو زندہ رکھ
قبائل بستیوں میں ڈھول لے آئے ہیں جنگل سے
تُو اس ماحول میں یارب! ثنا خوانوں کو زندہ رکھ
ریاضِؔ بے نوا کی التجا ہے، قادرِ مطلق!
چراغِ مرسلِ آخر کے پروانوں کو زندہ رکھ