رحمتِ یزداں کا در میرے خرابے میں کھُلا- کتابِ التجا (2018)
یا خدا! شہرِ سیاست میں چلے ٹھنڈی ہوا
کسمپرسی کے ہے عالم میں مری ارضِ دعا
تیرگی ماتم کناں اپنی صفِ ماتم پہ ہو
میری بستی کو چراغوں کی نئی بستی بنا
دیکھ، مٹی میں ملی ہے آبرو ہر شخص کی
اپنے ہر بندے کے سر پر دے تحفظ کی ردا
چھین لی شدت پسندی نے ردائے اعتدال
ہر کسی انسان کو تُو سیدھے رستے پر چلا
آدمی پھر گمرہی کی راکھ ہے اوڑھے ہوئے
ابنِ آدم کی کھلی آنکھوں میں ہو شرم و حیا
اپنی ہر مخلوق کا مشکل کشا تُو ہی تو ہے
اپنی ہر مخلوق کا روزی رساں ہے تو خدا
یا خدا! تیری فضائے عشق لامحدود ہے
مصطفیؐ ہی مصطفیؐ ہیں مصطفیؐ ہی مصطفیؐ
عافیت کے سبز خیمے ہر گلی کے موڑ پر
ایک اک لمحہ ہے شر کے خوف میں لپٹا ہوا
برف کے کہسار میں روشن ہیں ماؤں کے چراغ
حشر تک ان پر گرے بارانِ رحمت، یاخدا!
جرم جتنے بھی ہوئے سرزد، ہو اُن سے درگذر
سن خداوندِ مقدس، سن مری ہر التجا
اس سے بڑھ کر اور کیا بندہ نوازی ہو، ریاضؔ
رحمتِ یزداں کا در میرے خرابے میں کھُلا