میں حرفِ دعا بن کے سجدہ کروں گا- کتابِ التجا (2018)
درِ التجا پر
میں اشکوں کی تصویر بن کر کھڑا ہوں
ندامت کا ٹھنڈا پسینہ جبیں پر
کہانی بیاں کر رہا ہوں میں اپنی
گناہوں، خطاؤں کے ویراں کھنڈر اب
بلاؤں نے مسکن بنائے ہوئے ہیں
مرے دیدہ و دل سے لپٹی ہوئی ہیں… یہ کالی بلائیں
چراغ آرزو کے یہ سارے بجھا کر
غبارِ شبِ غم کا حصہ بنی ہیں… یہ کالی بلائیں
میں امشب مصلے پہ اپنے خدا سے شرف ہمکلامی کاحاصل کروں گا
دعاؤں کی گٹھڑی بھی سر پر رکھی ہے
کرم کے گلابوں کا منگتا ہوں کب سے
درِ مصطفیٰ پر میں دامن بچھا کر
خدائے معظم سے مانگوں کا سب کچھ
درِ التجا پر
ستاروں کے جھرمٹ
فلک سے اتر آئیں گے … دیکھنا تم
مجھے یہ یقیں ہے
خدائے محمدؐ
مجھے ہر قدم پر نئے سورجوں کی بشارت بھی دے گا
مجھے وہ مصائب کے اندھے کنویں سے نکالے گا اک دن
عطا کر کے روشن سحر کے اجالے
مجھے آگہی کے سمندر بھی دے گا
ہوائیں چراغوں کو دیں گی تحفظ
مرے آبخوروں میں پانی نہیں ہے
مری چھاگلیں خود بھی پیاسی ہیں کب سے
مرے ندی نالوں میں اب تشنگی کے سمندر رواں ہیں
درِ التجا پر
مسائل، مصائب کی سب گٹھڑیاں رکھ کے امشب
میں حرفِ دعا بن کے سجدہ کروں گا