حمد و نعت: اُس ذاتِ لاشریک کو ربِ جہاں کہوں- ورد مسلسل (2018)
اُس ذاتِ لاشریک کو ربِ جہاں کہوں
ہر چیز پر ازل سے اُسے حکمراں کہوں
جس کا ہے نور ارض و سماوات پر محیط
اُس بیکراں وجود کو مَیں لامکاں کہوں
الفاظ گنگ، سوچ کا چہرہ بھی فق ہوا
حیرت زدہ ہوں کس طرح حرفِ بیاں کہوں
مَیں عجز و انکسار کی سرحد پہ سرنگوں
اُس حرفِ معتبر کو فقط جاوداں کہوں
حمدِ خدا سے کرتا ہوں آغاز نعت کا
اﷲ کے کرم کو مَیں اپنی زباں کہوں
پرچم بنا کے دامنِ صد چاک کا کبھی
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھر بستیاں کہوں
اک سیلِ ذوق و شوق رگوں میں ہے موجزن
اک سلسبیل نور کی ہے زرفشاں کہوں
پہلے کروں مَیں کوثر و تسنیم سے وضو
پھر اُن ﷺ سے بیقراریٔ تشنہ لباں کہوں
انسانیت کے محسنِ اعظم ﷺ کے نام کو
زخموں کی تیز دھوپ میں اک سائباں کہوں
اُن ﷺ پر ہیں ختم نورِ رسالت کی طلعتیں
مہرِ یقین و نورِ جبیں بے گماں کہوں
اُن ﷺ کے نقوشِ پا کو لکھوں منزلِ مراد
اُن ﷺ کی گلی کو غیرتِ صد آسماں کہوں
نامِ نبی ﷺ کے ساتھ جو آنکھوں میں آگئے
اُن آنسوؤں کو حاصلِ عمرِ رواں کہوں
یوں تو مری حیات کا عنوان اور تھا
لیکن بفیضِ نعت اسے گلفشاں کہوں
پرچم بنا کے دامنِ صد چاک کا کبھی
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھر بستیاں کہوں
جی چاہتا ہے گنبدِ خضرا کے سامنے
ٹوٹے ہوئے وطن کی کبھی داستان کہوں
آنکھوں میں سیلِ اشکِ ندامت کے باوجود
برباد ہو گیا ہے مرا آشیاں کہوں
درِ یتیم، آمنہؓ کے لال ﷺ کو ریاضؔ
سردارِ کائنات، ﷺ شہِ مرسلاں ﷺ کہوں