سب پرندے، سب فضائیں، بال و پر پتھر کے ہیں- ورد مسلسل (2018)

سب پرندے، سب فضائیں، بال و پر پتھر کے ہیں
یا نبی ﷺ ، خلقِ خدا کے گھر کے گھر پتھر کے ہیں

خوشبوئے خلدِ نبی ﷺ کو جسم ہو، یارب! عطا
جس قدر بھی ہیں یہاں دیوار و در پتھر کے ہیں

پھر دعا مضروبِ طائف کی سنیں اہلِ چمن
گفتگو کی شاخ کے برگ و ثمر پتھر کے ہیں

جو علامت تھے خنک موسم کی اے میرِ عرب ﷺ
کیا قیامت ہے کہ وہ سارے شجر پتھر کے ہیں

یانبی ﷺ ، غارِ حرا کی روشنی کی ہے طلب
کتنی صدیوں سے چراغِ رہگذر پتھر کے ہیں

آپ ﷺ کے نقشِ کفِ پا کی ضرورت ہے، حضور ﷺ
چل رہے ہیں گو ہمارے ہمسفر، پتھر کے ہیں

عشق کی سنگت میں بن جائیں گے یہ تازہ گلاب
کیا ہوا سارے حروفِ نو اگر پتھر کے ہیں

میرے گلشن میں مدینے کی ہوا اترے حضور ﷺ
پھول سنگ و خشت کے زیرِ اثر پتھر کے ہیں

دست بستہ چُپ رہے سرکار ﷺ کی چوکھٹ پہ ہم
نذر کیا کرتے ہمارے اشکِ تر پتھر کے ہیں

قرض ہے میرے قلم پر نعت گوئی کا حضور ﷺ
اس برس حرفِ سخن بارِ دگر پتھر کے ہیں

گنبدِ خضرا کی ہریالی نظر آتی نہیں
میرے ویرانے میں اربابِ نظر پتھر کے ہیں

پھر کبھی بادِ بہاری کو ملے اذنِ سفر
اَن گنت برسوں سے جسموں کے کھنڈر پتھر کے ہیں

عکس ملتے ہیں کہاں خالی فریموں میں حضور ﷺ
آئنے تو آئنے آئینہ گر پتھر کے ہیں

عِلم کی مضراب سے نغمہ کوئی پھوٹے گا کیا
دکھ تو یہ ہے مکتبوں میں دیدہ ور پتھر کے ہیں

سرکشی امواج کی کب روک پائی ہے مگر
کشتیاں کیسے چلیں جب بحر و بر پتھر کے ہیں

ساعتیں عہدِ رسالت کی چلو ڈھونڈیں ریاضؔ
اِس صدی اِس دور کے شام و سحر پتھر کے ہیں