گرفتِ شب سے رہائی- زر معتبر (1995)
کفن لہُو کا دیا شب نے بارہا مُجھ کو
کیا ہَے مرگِ مسلسل میں مُبتلا مُجھ کو
یہ کیا کہ مَیں سرِ مقتل بھی رہ نہیں سکتا
مرے رفیق ہی دیں حکِم انخلا مُجھ کو
زمیں کا قرض چکانا ہے اسکے بیٹوں کو
دکھا دیا ہے حقائق نے آئنہ مجھ کو
زمین تنگ ہُوئی جارہی ہے اُمت پر
دکھائی دیتی ہے ہر سمت کربلا مجھ کو
ہوائے قہر، سلامت رہے نہ میرا بدن
ضمیر مُردہ ہے، کوڑے ابھی لگا مجھ کو
حضُورؐ آپؐ کا مُجرم ہوں درگزر نہ کریں
خُدا کے واسطے کوئی تو دیں سزا مجھ کو
مَیں ایک حرفِ ندامت سہی مرے آقاؐ
کوئی کرے نہ معانی سے اب جُدا مجھ کو
دُھواں دُھواں ہے مِرے فن کی چاردیواری
ریاضؔ شہرِ سیاست میں کیا ملا مجھ کو
مَیں شمعِ حسنِ عقیدت ہوں پھر جلا مجھ کو
ہوائے شام، کسی طاق میں سجا مجھ کو
قفس میں کاٹ کے رکھے ہوئے تھے پَر میرے
کیا ہے ذوقِ تماشا نے پَر کشا مجھ کو
ثنا کے لفظ دھنک بن کے لب پہ اُترے ہیں
قبولیت کی سند بھی تو ہو عطا مُجھ کو
ترے حبیب کی لکھتا رہوں سدا نعتیں
خدائے پاک دے صدیوں کا رتجگا مجھ کو
طوافِ کعبہ و زم زم کا ذکر اپنی جگہ
کوئی تو بات مدینے کی بھی سنا مجھ کو
ہے جس کے ہاتھ میں مشعل ازل سے سورج کی
گرفتِ شب سے کرے گا وہی رہا مجھ کو
چلوں تو ساتھ چلے چاندنی، ہوا، شبنم
نویدِ وصلِ بہاراں تو دے صبا مجھ کو
ریاضِ جاں میں شگوُفے چٹک رہے ہیں ریاضؔ
ملا ہے اِذن ثنائے رسُولؐ کا مجھ کو