ارض و سما کو تھا ترےؐ آنے کا انتظار- زر معتبر (1995)
شہرِ ثنا میں پھُول سجانے لگی ہَوا
آنے لگی حروف کی چلمن سے بھی ضیا
اتری بہار میری گلی میں لیے دھنک
کرنے لگی سجُود پسِ آرزو صبا
خوشبو چراغ لے کے بڑھی صحنِ باغ میں
اِک سرمدی سحاب گلستاں پہ چھا گیا
تقسیم ہو رہی ہے ہَواؤں میں چاندنی
کرنوں میں ڈوب ڈوب چلی پھُول کی عبا
تاروں نے آنکھ بند کی پڑھتے ہُوئے درُود
ہر ذرّہ کائنات کا کرنے لگا ثنا
ہر چیز پر محیط ہُوئے روشنی کے ہاتھ
نظروں میں آفتاب کی لہرا گئی قبا
دامن مرا بھی پھیل گیا حرف و صوت میں
اُس پیکرِ خلوص کی رحمت کا دَر کھُلا
بادل اُٹھا ہے چشمِ عقیدت سے آج بھی
سوئے حرم چلی ہے مناجات کی گھٹا
احساس میں سمٹنے لگا آگہی کا نُور
دستِ دُعا نے اسمِ مُحمّدؐ کو چھُو لیا
حیران رہ گئیں مِری آنکھوں کی پُتلیاں
اوجِ فلک کی سَمت چلا بختِ نارسا
نعتِ نبیؐ کی مجھ کو سُنائی گئی نوید
پُھولوں سے بھر گئی مِرے افکار کی ردا
صدیاں سمٹ کے نوکِ قلم میں سما گئیں
اللہ کا شکر نطق و بیاں نے کیا ادا
آنکھوں نے اُنؐ کے نقشِ قدم کو کیا سلام
ہونٹوں نے چوُم چوُم لیا نامِ مُصطفےٰؐ
منصب ملا ہے مجھ کو ثنائے رسُول کا
لمحہ گرفت میں ہے ابھی تک نزُول کا
اے رُوحِ کائناتِ محبت سخن نثار
تیرؐے لیے ازل سے ابد تک کا اقتدار
تیرؐے نقوشِ پا کی شعاعیں اُفق اُفق
ارض و سما کو تھا ترؐے آنے کا انتظار
سانسوں میں تیرؐے نام کی خوشبوُ کا ذائقہ
ہونٹوں پہ ثبت ہے ترؐی نسبت کا افتخار
جھرنے تریؐ ثنا کے سماعت میں نغمہ زن
رویا کی وادیوں میں ہَے کرنوں کا آبشار
تو کشتِ آرزو میں مہکتا ہُوا گلاب
انسانیت کے نخلِ تمنّا کا بھی نکھار
قدموں سے پھر لپٹ کے مناتا میں رتجگے
ہوتا میں تیریؐ راہ گزر کا اگر غبار
کشکولِ جاں میں حرفِ ندامت ہے یانبیؐ
مشکور ہو نوائے رگِ جاں کا انکسار
تو رحمتِ دوام ہے اے سیّد البشرؐ
تو قلب کا سکون ہے تو رُوح کا قرار
اے نُورِ اوّلیں، مِرے گھر میں کوئی چراغ
تیرہ شبی کے زخم بدن پر ہیں بے شمار
کلیوںسے لاکھ بار چھنے گی ردا مگر
تیرؐا وجُود میرے گلستاں کا اعتبار
دستِ کرم کا سایہ رہے ہر نفس حضورؐ
گلشن میں مختصر نہ ہو اب عرصۂ بہار
میرے دُکھوں کا کوئی مداوا ہو آج بھی
روزِ ابد حریمِ شفاعت کے تاجدار
تجھ پر سلام رحمتوں کے بابِ اوّلیں
تجھ پر درُود، روشنی کے آخری حصار
عظمت کے نُور سے بھرے خالی مرا سبو
ہو آشنا حروفِ تدّبر سے گفتگو