زمیں سے عرشِ بریں تلک ہے انہیں کا چرچا انہیں کی باتیں- زر معتبر (1995)
زمیں سے عرشِ بریں تلک ہے انھیں کا چرچا انھیں کی باتیں
انھیں کی صبحیں، انھیں کی شامیں، انھیں کے دن ہیں انھیں کی راتیں
حریمِ شعر و سخن میں گھونگھٹ اُلٹ رہی ہے صبا کا خوشبو،
مہک رہی ہیں کسی کے نقشِ قدم سے میری گلاب راتیں
جبینِ ارض و سما پہ لکھا ہوا ہے اسمِ رسولِ برحق،
شمیمِ گل نے کہا یہ مجھ سے کریں رسولِ خدا کی باتیں
حبش کے حضرت بلالؓ اُنؐ کی عظیم محفل کی روشنی ہیں
کہاں کی نام و نسب کی حشمت کہاں کے طرّے کہاں کی ذاتیں
سند غلامی کی اُنؐ کے در سے ملے تو سمجھیں خدائی پا لی
جنُونِ سود و زیاں نہیں جب کہاں کی فتحیں کہاں کی ماتیں
چراغِ نقشِ قدم سے چمکے، اُفق کا دامن، سحر کا آنچل
لگا رکھی ہیں قدم قدم پر غبارِ شب میں قضا نے گھاتیں
ریاضؔ اشکوں کی چاندنی سے کہو کہ چھیڑے سرِ محافل
بہارِ صبحِ ازل کے قصّے، جمالِ شامِ ابد کی باتیں