غریبِ دل پہ تسلّط دکھوں کا جاری ہے- ورد مسلسل (2018)
غریبِ دل پہ تسلّط دکھوں کا جاری ہے
درود پڑھتے ہوئے شامِ غم گذاری ہے
کھڑی ہے قتل گہوں کے جوار میں کب سے
یہ وقت آپ ﷺ کی امت پہ سخت بھاری ہے
کئے تھے علم کے روشن چراغ جس نے کبھی
شعور و فکر سے امت وہ آج عاری ہے
سروں کی فصل ہی کاٹی ہے جب بھی کاٹی ہے
لہو سے تشنہ زمینوں کی آبیاری ہے
ضمیرِ مردہ کو پرچم بنا کے نکلے ہیں
حضور ﷺ ، فردِ عمل بھی سیہ کاری ہے
کتابِ جرمِ ضعیفی ہے اپنے ہاتھوں میں
جو اپنے آپ پہ ہم نے ہی خود اتاری ہے
دیے جلانے کا منصب گنوا چکی امت
طویل رات مقدّر پہ کب سے طاری ہے
یہ خاص لطف و کرم ہے خدائے واحد کا
ثنائے مرسلِ آخر ﷺ کب اختیاری ہے
ابھی تو گنبدِ خضرا نظر نہیں آیا
ابھی سے وجد کا عالم قلم پہ طاری ہے
ہر ایک شخص کو آقا ﷺ کی رحمتیں دینا
درِ حضور ﷺ کا ہر شخص ہی بھکاری ہے
ہمارے بچوں کے سب ولولے تو تازہ تھے
یقین و عزم کی بازی یہ کس نے ہاری ہے
حضور ﷺ امتِ بے جان پر کرم کی نظر
پڑی ہے چوٹ جو دل پر وہ ضرب کاری ہے
سند ملی ہے شفاعت کی جاں نثاروں کو
قدم قدم پہ غلامی کی زر نگاری ہے
ہر ایک لفظ کے لب پر گلاب رکھتا ہوں
شریکِ کلکِ ثنا بادِ نو بہاری ہے
دعا کے سبز مصلّے پہ شب کے پچھلے پہر
کسی کی چشمِ ندامت کی اشکباری ہے
سوائے چند لٹیرا نما خداؤں نے
خدا کی ساری ہی خلقت دکھوں کی ماری ہے
ریاضؔ کل بھی تڑپ تھی ہمیں مدینے کی
ریاضؔ آج بھی سینے میں بیقراری ہے