پہنے ہوئے ثنا کی ہیں پوشاک آج بھی- ورد مسلسل (2018)

پہنے ہوئے ثنا کی ہیں پوشاک آج بھی
آنکھیں مرے قلم کی ہیں نمناک آج بھی

ذکرِ جمالِ سیّدِ کونین کے طفیل
مشعل بنا ہے قریۂ ادراک آج بھی

مَیں محفلِ درود میں بھی اشکبار ہوں
اترے زمیں پہ عظمتِ افلاک آج بھی

ارض و سما میں ڈھونڈتی پھرتی ہیں خوشبوئیں
نقشِ قدومِ سیّدِ لولاک ﷺ آج بھی

آدم کی نسل اُن کا وسیلہ کرے تلاش
ورنہ بنے گی یہ خس و خاشاک آج بھی

اس میں نہیں تھے پھول مدینے کے اس لئے
دامن ہوائے شب کا ہوا چاک آج بھی
محشر کے بعد اپنے خدا سے کروں گا عرض
مطلوب مجھ کو طیبہ کی ہے خاک آج بھی

اُن ﷺ کے عدو کا نام و نشاں تک نہیں رہا
اُن ﷺ کے عدو کا نام ہے ناپاک آج بھی

ایوانِ کفر میں ہے بپا زلزلہ، ریاضؔ
بیٹھی ہوئی ہے دشمنوں پہ دھاک آج بھی