رخشندگی ملے گی، تابندگی ملے گی- ورد مسلسل (2018)

رخشندگی ملے گی، تابندگی ملے گی
جب بھی قدم اٹھے گا، روشن گلی ملے گی

لکھوں گا بادباں پر اسمِ نبی ﷺ ادب سے
بارش میں مجھ کو کشتی پھر کاغذی ملے گی

روضے کی جالیوں کے لب چومنے سے پہلے
اشکِ رواں کی تجھ کو دیوار سی ملے گی

جتنی بھی زنگ خوردہ سوچیں ہیں دفن کر دو
اُن ﷺ کی گلی میں جا کر آسودگی ملے گی

محرومیوں کا قصہ پارینہ ہو چکا ہے،
طیبہ میں جو ملے گی ساعت بھلی ملے گی

بادِ صبا کی میں نے سرگوشیاں سنی ہیں
شاخِ ثنا لحد میں اس کو ہری ملے گی
خالی جب آبخورے رکھ دوں گا اُن ﷺ کے در پر
سمٹی ہوئی ادب سے تشنہ لبی ملے گی

قدموں میں مجھ کو آقا ﷺ مرنے کی دیں اجازت
طیبہ میں کیا سکونت پھر عارضی ملے گی

پھر چشمِ مضطرب میں چمکیں گے آبگینے
ہر آرزو خوشی میں لپٹی ہوئی ملے گی

پڑھ کر درود روشن ہر عکس ہو رہا ہے
ہر آئنے کو خاکِ شہرِ نبی ﷺ ملے گی

اتنا مَیں جانتا ہوں سرِ شام شہرِ مدحت
جس سمت بھی میں نکلوں گا روشنی ملے گی

دامانِ مصطفیٰ کو کوئی تھام کر تو دیکھے
مردہ ضمیرِ شب کو زندہ دلی ملے گی

میلادِ مصطفیٰ کی محفل سجا رہی ہیں
حوا کی بیٹیوں کو پھر اوڑھنی ملے گی
خوشبو، ریاضؔ، چھپ کر اوراق پر بچھی ہے
جب بھی ثنا کروں گا، رُت سرمدی ملے گی