کشادہ صحنِ جاں میں آرزو خیمے لگائے گی- ورد مسلسل (2018)
کشادہ صحنِ جاں میں آرزو خیمے لگائے گی
گلستانِ مدینہ سے ہوا جنت کی آئے گی
امیرِ قافلہ! تم شوق سے محشر تلک ٹھہرو
طلب میری مجھے رستہ مدینے کا دکھائی گی
ہماری حاضری کے حکمنامے کے علاوہ بھی
مدینے سے کھجوروں کی صبا سوغات لائے گی
یہ چمکیں گے سرِ لوح و قلم لفظوں کے باطن میں
کہاں تک چشمِ تر آنسو پسِ مژگاں چھپائے گی
سماعت کے دریچے کھول دے اے ہمنشیں! تو بھی
زباں صلِّ علیٰ کا سرمدی نغمہ سنائے گی
حیاتِ چند روزہ کے ہر اک لمحے کے دامن میں
حضوری کی تمنّا نعت کی محفل سجائے گی
ادب سے خوشبوئیں پہنائیں گی گجرے غلاموں کو
ہوا ہر شام بزمِ نعت میں شمعیں جلائے گی
اگر تم خوابِ غفلت سے نہ جاگو گے تو پھر سن لو
صدی جرمِ ضعیفی کی سزائے موت پائے گی
ہماری بے بسی پر قہقہے برسے ہیں امشب بھی
ہوائے تند جلتے آشیاں کب تک اڑائے گی
نقوشِ پائے سرکارِ دو عالم ﷺ کے تصدق سے
لغت کے آئنہ خانے کی دنیا جگمگائے گی
پریشاں ہے ریاضِؔ بے نوا شہرِ پریشاں میں
نوا اِس بے نوا کی آج بھی آنسو بہائے گی