قطعات- ورد مسلسل (2018)

قطعہ

مشرف ساعتوں کا ہر شرف پایا ہے پھر، یارب!
ورق سادہ اٹھا کر ہاتھ میں لایا ہے پھر، یارب!
ذخیرہ حرفِ نو کا ڈال دے اس کے بھی دامن میں
قلم زرخیز لمحے مانگنے آیا ہے پھر، یارب!

قطعہ

مرحبا صد مرحبا شامِ درودِ مصطفیٰ ﷺ
لب بہ لب حرفِ ثنا شامِ درودِ مصطفیٰ ﷺ
موجزن صلِّ علیٰ کا اک سمندر ہے، ریاضؔ
ہے کرم کی انتہا شامِ درودِ مصطفیٰ ﷺ

قطعہ

افضل و برتر خدا کے بعد ہے ذاتِ نبی ﷺ
سب قبیلوں سے بنی ہاشم قبیلہ ہے عظیم
کیا بیاں ہو نسبتِ خیرالبشر ﷺ کا ہم نفس
سرورِ کون و مکاں ﷺ کا بس وسیلہ ہے عظیم

قطعہ

آرزوئے عرب آپ ﷺ ہیں یانبی ﷺ
آبروئے عجم آپ ﷺ کی ذات ہے
مرکزِ علم و فن آستاں آپ ﷺ کا
جستجوئے قلم آپ ﷺ کی ذات ہے

قطعات

کلکِ شعور مانگ کے ربِّ قدیر سے
کچھ پھول لے کے گلشن روشن ضمیر سے
سردارِ کائنات کے قدموں کو چوم کر
لکھیں گے روزنامچہ خیرِ کثیر سے

*

چرچا ہے کائنات میں طیبہ کے پھول کا
سارا جمال اُن ﷺ کے ہے قدموں کی دھول کا
سارے نبی ﷺ حروف ہیں جس پیش لفظ کے
وہ ایک اقتباس ہے نعتِ رسول ﷺ کا

قطعہ

فصیلِ شہرِ مدحت پر ستارے جھلملا اٹھے
ہزاروں رنگ اترے ہیں مری چشمانِ حیرت میں
مرے قصرِ غلامی کے درو دیوار کہتے ہیں
ازل ہی سے منقّش روشنی ہے تیری قسمت میں

قطعہ

اپنے آبا سے وراثت میں ملی حُبِّ نبی ﷺ
قیمتی سب سے اثاثہ ہے غلامی آپ ﷺ کی
اس لیے پیشِ نظر نقشِ قدم ہیں آپ ﷺ کے
اس لیے شہرِ قلم میں ہے ازل سے روشنی

قطعہ

خوف کی چادر میں ہے لپٹا ہوا میرا بدن
آج بھی سانسیں مری اکھڑی ہوئی ہیں یانبی ﷺ
آج بھی سوچوں کے جنگل میں ہوں میں بکھرا ہوا
آج بھی کرب و بلا میں آپ ﷺ کا ہے امتی

قطعہ

دیئے جلاؤ ورق پر نبی ﷺ کی عظمت کے
گلاب بانٹو ہواؤں میں اُن ﷺ کی مدحت کے
درود پڑھتی ہوئی تتلیوں کو مت پکڑو
غلام تم بھی ہو بچو! رسولِ رحمت کے

قطعہ

روشنی حرفِ ثنا کی ہو ہماری قبر میں
خوب ہو، ہر وقت ہو، مدحت نگاری قبر میں
اے خدا! سرکار ﷺ کے نقشِ کفِ پا کے طفیل
حشر تک چلتی رہے بادِ بہاری قبر میں

قطعہ

یہ شہرِ امن ہے یہاں کھلتے رہیں گلاب
کوئی نشان ملتا نہیں اضطراب کا
ہر ہر قدم پہ نقشِ کفِ پا ہیں آپ ﷺ کے
مکّہ بھی ہے جنابِ رسالت مآب ﷺ کا

قطعہ

میرے اسلوبِ ثنا کو خلعتِ انوار دے
نعت کے ہر شعر کو افکار کی دستار دے
وادیٔ ابہام میں مفہوم کی چادر بچھے
وادیٔ تشکیک کو لاکھوں در و دیوار دے

قطعہ

خاموش کب سے ہوں لبِ اظہار بھی ملے
مجھ بے نوا کو اب زرِ گفتار بھی ملے
آقا ﷺ برہنہ پا ہوں برہنہ ہے میرا سر
بستی میں مجھ کو سایۂ دیوار بھی ملے

قطعہ

اے خدائے روز و شب بے بال و پر بیٹھا ہوں مَیں
شہرِ طیبہ کے تصور میں ادھر بیٹھا ہوں مَیں
ہر ورق پر جلوہ گر ہے خوشبوئے اسمِ نبی ﷺ
آرزو کی سب کتابیں کھول کر بیٹھا ہوں مَیں

قطعہ

ہزار بار ہو سیراب آبِ زم زم سے
وضو کرے شبِ توصیف چشمِ پرنم سے
قلم کو چوم لے خوشبو دیارِ طیبہ کی
لکھوں میں نعتِ پیمبر ﷺ ادب کے ریشم سے

قطعہ

آخری دن ہیں حیاتِ مختصر کے دوستو!
اب کہاں میرے مقدّر میں مدینے کا سفر
اب کہاں خلدِ مواجہہ میں مرے اشکوں کے پھول
اب کہاں وہ کیف میں ڈوبے ہوئے شام و سحر

قطعہ

ہر ایک حرف کو تو حرفِ مجتبیٰ کر دے
سخنوری کو غلامی کی انتہا کر دے
کچھ اور لکھ نہ سکے نعتِ مصطفیٰ ﷺ کے سوا
مرے خدا! مجھے ایسا قلم عطا کر دے

قطعہ

وہی گلاب جو قبروں پہ ڈالے جاتے ہیں
وہی گلاب لحد میں سجا دئیے آقا ﷺ
مرے وطن کی ہوائیں بھی بَین کرتی ہیں
جہالتوں نے قلم بھی جلا دئیے آقا

قطعہ

خوش نصیبی نے قدم چومے ترے
تو کھڑا ہے حیطۂ انوار میں
رشک تجھ پر کر رہی ہے روشنی
حاضری ہے آپ ﷺ کے دربار میںٍ

قطعہ

ثروتِ نطق و بیاں ہے دامنِ غارِ حرا
علمِ نو کی کہکشاں ہے دامنِ غارِ حرا
لفظ اقرا کے اجالوں میں فضا لپٹی ہوئی
نور و نکہت کا جہاں ہے دامنِ غارِ حرا

قطعات

چراغِ نعت جلے آسمانِ مدحت پر
قلم حضور ﷺ کے دربار میں رہے، یارب!
رواں دواں رہے نطق و بیاں کی ہر کشتی
چنابِ عشق مری روح میں بہے یارب!

*

عمرِ عزیز! منتشر ہونا نہیں کہیں
اگلے برس بھی جشنِ ولادت منائیں گے
اگلے برس بھی رقص کرے گا یہی قلم
اگلے برس بھی چاند ستارے اگائیں گے

قطعات

مجھ کو طلب کیا درِ اقدس پہ آپ ﷺ نے
باقی رہا نہ فاصلہ نزدیک و دور کا
اب کے برس بھی اپنی غلامی کی دی سند
مجھ بے نوا پہ کتنا کرم ہے حضور ﷺ کا

*

آنسو گرے ہیں خون کے چشمِ شعور سے
رونے کی آ رہی ہیں صدائیں قبور سے
بچوں کا خون حرفِ ثنا میں سمیٹ کر
فریاد کر رہا ہوں میں آقا حضور ﷺ سے

قطعہ

سکون و امن کا نام و نشاں مٹائے گی
ہوس کی آگ محبت کا گھر جلائے گی
دکھائی دیتا ہے سورج کی روشنی میں حضور ﷺ
انا کسی کی اجالوں کو چاٹ جائے گی

قطعہ

ہر ہر قدم پہ آج بھی برپا ہے کربلا
دیکھی ہے مَیں نے جبر و تشدد کی انتہا
میرا قلم ضمیر کے ہاتھوں میں ہے ریاضؔ
کیسے کسی یزید کو لکھوں مَیں پارسا