ثلاثی- ورد مسلسل (2018)

ثلاثی

غبارِ حرفِ ندامت میں آنکھ ہے میری
ستارا ایک بھی مجھ کو نظر نہیں آتا
مرے خدا! مری بینائی کو سلامت رکھ

ثلاثی

روشنی لکھتا رہوں میں روشنی پڑھتا رہوں
یہ ورق پر پھیلی جاتی ہے ستاروں کی طرح
اس کا ہوتا ہے مدینے کی کنیزوں میں شمار

ثلاثی

میری پوتی فاطمہ رہنے لگی محوِ ثنا
اس کے ہونٹوں پر خدائے آسماں کا نام ہے
اس کی آنکھوں میں درِ خیر البشر ﷺ ہے ضو فشاں

ثلاثی

حضور ﷺ ، سیّدِ لولاک ﷺ کے نقوشِ قدم
مری تلاش کا مرکز بھی اور محور بھی
وہی ہیں ملجا و ماویٰ، ہمارے رہبر ہیں

*

آپ ﷺ کی جائے ولادت پر رہیں آنکھیں مری
چوم لیں ہم زائرِ مکہ کا ہر نقشِ قدم
اپنے دامن میں چھپا لیں اشکِ تر کا اضطراب

ثلاثی

نیند کے عالم میں بھی حاضر رہے دربار میں
کب ہوا نظروں سے اوجھل گنبدِ خضرا ریاضؔ
نیند کے عالم میں بھی پڑھتے رہے اُن ﷺ پر درود

ثلاثی

اِس قدر اُن کی نوازش، اِس قدر اُن کا کرم
اُن کے الطاف و کرم کی ہیں مسلسل بارشیں
میرا دامن تنگ ہے، اُن کی عطائیں بے شمار

*

سر جھکاتا ہے مصلّے پر قلم میرا ریاضؔ
چشمِ تر اُن ﷺ کی محبت کے جلاتی ہے چراغ
منکشف ہوتا ہے مجھ پر میرے اندر کا ضمیر

ثلاثی

ہر آنکھ میں ہوں گنبد خضرا کی تابشیں
ہر ہر قدم پہ کھلتے رہیں آرزو کے پھول
یارب! ثنائے مرسلِ آخر کا اذن ہو

ثلاثی

کب ہوا نظروں سے اوجھل گنبدِ خضرا ریاضؔ
نیند کے عالم میں بھی حاضر رہے دربار میں
نیند کے عالم میں بھی پڑھتے رہے اُن ﷺ پر درود

ثلاثی

اپنی خوش بختی پہ میں حیراں نہیں آقا حضور ﷺ !
التجا کرنے سے پہلے بھر گیا دامن مرا
کب کوئی لوٹا ہے خالی ہاتھ شہرِ نور سے

ثلاثی

جب نشیمن جل رہے تھے نور کی برسات میں
جب غبارِ خوف میں سہما ہوا تھا آدمی
تب مدینے سے اٹھیں کالی گھٹائیں جھوم کر

*

کبوتر اڑتے اڑتے کھو گیا ہے کن فضاؤں میں
حقائق کے پرندوں کا وہی تو ایک مسکن ہے
سوائے گنبدِ خضرا کے جائے گا کہاں آخر؟

*

آپ ﷺ کی دہلیز کو بس چومنے کی دیر تھی
منظرِ ارض و سما ڈوبے رہے سب کیف میں
دیدہ و دل میں چراغِ آرزو جلنے لگے

ثلاثی

مَیں غبارِ رہگذارِ رنگ و بو ہوں یا نبی ﷺ
کاروانِ شہرِ طیبہ کا ہوں آقا ﷺ منتظر
کب میں چوموں گا مدینے کے مسافر کے قدم

ثلاثی

جس طرف دیکھو چراغاں ہی چراغاں ہے ریاضؔ
روشنی سے جگمگا اٹھا ہے شہرِ آرزو
سرحدِ ادراک پر نقشِ قدم ہیں آپ ﷺ کے

*

خوشبوئیں ہر پل مؤدب، دست بستہ ہیں حضور ﷺ
آپ ﷺ کی دہلیز کو تھامے ہوئے کہنے لگیں
لب پہ ہیں آقا ﷺ حضوری کی تمنّا کے گلاب

*

سوچتا رہتا ہوں ہاتھوں میں قلم تھامے ہوئے
کون دیتا ہے مجھے حرفِ ادب کی دلکشی
کون رکھتا ہے ورق پر چاند کی کرنیں تمام

*

ہاتھ کیوں ٹوٹے نہیں خاکہ نگاروں کے ابھی
کیوں نہیں ڈوبا سفینہ دشمن سرکار ﷺ کا
کیوں نہیں اترا خدایا! شر پسندوں پر عذاب

ثلاثی

رواں ہے قافلہ شہرِ حضور ﷺ کی جانب
چراغ بانٹنے والی ہوا سے یہ کہنا
ہمارے ہاتھ پہ رکھنا دیے غلامی کے

*

حضور ﷺ ، دانشِ افرنگ پر پڑے پتھر
جہالتوں کی سیہ چادروں میں لپٹی ہے
کتابِ دیدہ و دل کے حروف مبہم ہیں

*

ہوائے جَبْر چلی ہے گلی گلی آقا ﷺ
اگر نقوشِ قدم آپ ﷺ کے نہ ہوں شامل
کتابِ عدل و مساوات نامکمل ہے

ثلاثی

ہواؤ! اذنِ سفر ہے اگر مدینے کا
تو میرے اشکِ تمنّا بھی ساتھ لے جانا
یہ کہنا آپ ﷺ کا شاعر اداس رہتا ہے

٭ حفیظ تائبؒ

ثلاثی

ریاضؔ اپنے بڑوں سے یہی سنا مَیں نے
خدا کے بعد محمد ﷺ کا نام آتا ہے
خدا کی ساری خدائی انہیں سلام کرے

ثلاثی

آنکھوں میں ہو غبارِ مدینہ کی روشنی
ہونٹوں پہ ہو درودِ نبی ﷺ کی گلاب رُت
اللہ کی بارگہ میں مرا سر جھکا رہے

ثلاثی

خدا کی ساری خدائی میں جشن برپا ہے
افق افق پہ ستاروں کا عکس جاری ہے
مرے حضور ﷺ کی آمد ہے عید سے بڑھ کر