پلکوں پہ اُن ﷺ کی یاد کا میلہ لگا رہا- مطاف نعت (2013)
پلکوں پہ اُن ﷺ کی یاد کا میلہ لگا رہا
اِمشب بھی انتظار میں آنگن سجا رہا
دل میں رہی فروغِ تجلی کی آرزو
جاری زبانِ شوق پہ ذکرِ خدا رہا
ذکرِ نبی ﷺ کی اتری سماعت میں چاندنی
گلشن درود و نعت کا لب پر کھلا رہا
دیکھا تھا عکس زائرِ طیبہ کی آنکھ میں
پھر رات بھر حضور درِ مصطفیٰ ﷺ رہا
احساسِ شرمساریٔ غفلت نہ پوچھئے
ہے اتنا یاد دستِ دعا کانپتا رہا
سرکار ﷺ ڈالتے رہے دامن میں رحمتیں
نادم خشوع و عجز میں در پر جھکا رہا
تزئینِ حرف و صوت کے تحفے ملے مجھے
چشمِ قلم میں اشکِ دعا تیرتا رہا
یادِ درِ حبیب ﷺ کا احرام باندھ کر
ذوقِ سخن ثنا کی سعی میں لگا رہا
موسم ہوائے نفس کا طوفاں بدوش تھا
کوئے نبی ﷺ سے دل کا مگر رابطہ رہا
یارب دعائے شیخ میسر رہے مجھے
اُن کی توجہات کا سایہ گھنا رہا
ہے یاد مجھ کو وادیٔ بطحا کی رات بھی
برسا کرن کرن جو نظارہ، سدا رہا
حوضِ احد سے جامِ شہادت ملا جنہیں
ان کے لہو سے نورِ شفق پھوٹتا رہا
کھلتے رہے گلاب سلام و درود کے
ان ﷺ کے کرم سے بزم کا دامن بھرا رہا
لایا تھا جو مدینے سے اخلاص کا دیا
تیز آندھیوں میں شمعِ فروزاں بنا رہا
ایمان کی گلی سے حیاء لوٹ لی گئی
دل کا لہو بھی دیر تک محوِ ندا رہا
اب تو حضور لوگ اسے بھول ہی گئے
محشر کہ جس کا کفر کو بھی سامنا رہا
اصلاحِ حال کے لئے دن رات یا رسول ﷺ
آنکھوں میں دل کے درد کا دریا چڑھا رہا
امت کے حالِ زار پہ اک نگہِ التفات
آقا ﷺ ! شرر سے اِن کا نہیں فاصلہ رہا
آنکھوں میں درد بن کے ہیں آنسو ٹھہر گئے
گریہ کہ تھا عزیزؔ مداوا بنا رہا