شاخِ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر- مطاف نعت (2013)

شاخِ جاں پر نعت کی کلیاں کھلیں شام و سحر
روح کی پہنائیاں مہکی رہیں شام و سحر

وہ ہجومِ نوریاں ہے تا فلک محوِ درود
جو طوافِ گنبدِ خضریٰ کریں شام و سحر

پھر خبر آئے بلایا ہے مجھے سرکار ﷺ نے
پھر رہیں بیتاب دل کی دھڑکنیں شام و سحر

چلتی رہتی ہیں مدینے کی ہوائیں رات دن
بانٹتی رہتی ہیں ان ﷺ کی رحمتیں شام و سحر

بند ہو جائیں زمانے پر مرے سمع و بصر
یثربِ دل پر مگر یہ وا رہیں شام و سحر
ہے اماں کی ایک صورت آج کے آشوب میں
ہوں مدینے کی میسر قربتیں شام و سحر

ضو فشاں جب تک رہیں بستی میں انوارِ درود
جھومتی رہتی ہیں ہر سو برکتیں شام و سحر

وجد کی کیفیتیں، یہ لذتیں، سوز و سرور
ایک حرفِ نعت کی ہیں رونقیں شام و سحر

جن کے نغماتِ ثناء میں گم ہے بزمِ کائنات
لذتِ ایماں ہیں ان کی محفلیں شام و سحر

یہ تو سارا شیخ کی نظرِ کرم کا فیض ہے
روح کو ملتی ہیں ان کی صحبتیں شام و سحر

جب امڈ آتا ہے دریا دل میں ان ﷺ کی یاد کا
گھومتا پھرتا ہوں پھر میں ہجر میں شام و سحر

نقش میری جاں پہ ہے صبحِ مدینہ کی گھڑی
پھوٹتی ہیں اس سے روشن ساعتیں شام و سحر
میرے ہونٹوں پر ہوئے روشن ستایش کے گلاب
پھر مرے حرف و سخن مہکے رہیں شام و سحر

آج کے بو لہب کے بھی ہاتھ ٹوٹیں اے خدا
آج بھی بو لہب پر شعلے گریں شام و سحر

آج بھی ابن ابیٔ٭ پر قہر ٹوٹے رات دن
اس کی پھر تذلیل کے دوزخ جلیں شام و سحر

ابرہا نکلا ہے بن کر آج گستاخِ رسول
آج بھی ان پر ابابیلیں اڑیں شام و سحر

جانے کیوں انسان نے پہنی ہوئی ہے تیرگی
ہر طرف روشن ہیں تیری آیتیں شام و سحر

شکر کے رنگوں سے کیوں محروم ہے صحنِ چمن
جب برستی ہیں زمیں پر نعمتیں شام و سحر

یہ نہ ہوں تو چاٹ جائے کرب کا موسم مجھے
میری آنکھوں میں دیئے روشن رہیں شام و سحر