مدینہ پاک جانے کی خواہش- مطاف نعت (2013)

اتری تھی جب
بفضلِ خدا
جنت النعیم
گردابِ ابتلا میں قدم
یوں پھسل گیا
شیرازہ میری ذات کا
یکسر بکھر گیا
ویرانۂ حیات میں تنہا کھڑا تھا مَیں
جیسے کسی کو مجھ سے
کوئی واسطہ نہ تھا
بے کس تھا ، بے نوا تھا
سرِ رہ پڑا تھا مَیں

فصل خزاں بھی
ایسی تو دیکھی نہ تھی کبھی
پہلے کبھی ہوا بھی تو
ابتر چلی نہ تھی
جیسے زمین بھی تھی گریزاں وجود سے
میرا بدن بھی
جیسے اب میرا بدن نہ تھا

لیکن کرم یہ تھا ۔۔۔۔
میری زباں پہ جاری درود و سلام تھا
آنکھوں میں ان کی یاد کے قلزم ابل پڑے
دنیا جوآس پاس تھی
وہ تھی اُسی طرح
لیکن کسی کو مجھ سے کوئی واسطہ نہ تھا
مَیں ہر کسی کے واسطے بے کار ہو گیا
اور پھر مرا کسی سے کوئی واسطہ نہ تھا
دل سے مرے نمود کا
اور جمعِ مال و سود کا
کانٹانکل گیا
دنیا کو پیچھے پھینک کر مَیں آگے بڑھ گیا
اور پیچھے مڑ کے دیکھنا لازم نہ تھا مجھے
تھی اک نئی بہار
مرے دل میں جلوہ گر
شرمندگی کے
ہر طرف خیمے لگے ہوئے
آنکھوں سے ہر گھڑی تھی
ندامت ٹپک رہی
سوتے میں بھی
زبان پر توبہ کے بول تھے
جاری مری زباں پہ درود و سلام تھا
دنیا میں جیسے
کوئی نیا آدمی تھا مَیں
دنیا میں جیسے کوئی
نیاآدمی ہوں مَیں
سب کون ہیں؟
کسی کو بھی اب جانتا نہیں
اک اجنبی ہوں مَیں
مَیںاجنبی ہوں اور
مَیںگنہ گار ہوں بہت
شرمسار ہوں بہت

مَیں زندگی کی دوسری جانب چلا گیا

دنیا نہیں خدا کی رضا چاہیے مجھے
کچھ ہو، درِ رسول ﷺ پہ چھوڑ آئیے مجھے
اس کے سوا تو اب مَیں نہیں کچھ بھی جا نتا
ہوں جانتا ضرور
مگر
اپنے شیخ کو
ورنہ مرا کسی سے سروکار ہی نہیں
دنیا میں میرا کوئی نہیں
شیخ کے سوا
مَیںاجنبی ہوں
مَیںنہیں دنیا کو جانتا
یہ بام و در جو ہیں
انہیں پہچانتا نہیں
دنیا میں ہوں ضرور مگر
کام اور ہے
کارِ جہاں کی اب مجھے فرصت نہیں رہی
دل میںمرے ضرور مگر
کھلبلی سی ہے
یک گونہ بے بسی بھی ہے
لیکن تڑپ بھی ہے
مل جائے کاش مجھ کو بھی
سرکار کی گلی
مل جائے کاش مجھ کو مری
جنت النعیم
دہلیزِ مصطفیٰ پہ کروں
آہ و زاریاں
لکھا کروں مَیںصبح و مسا
صاحبِ جمال کی یادوں کی چاندنی
اس طرح سے حضور ﷺ کی نسبت ملے مجھے
آقا ﷺ کی اس غلام کو قربت بھی ہو عطا
مل جائے مجھ کو اس طرح
سرکار ﷺ کی رضا
مل جائے یوں رضا مجھے
پروردگار کی
اور میری زندگی کا
وہیں اختتام ہو
آنکھوں میں میری قلزمِ شرمندگی رہے
دل میں وفورِ عشق کی تابندگی رہے
ہوتی رہے یہ عالمِ ملکوت میں دعا!