درِ حبیب سے لے لو حیاتِ نو اب بھی- مطاف نعت (2013)
درِ حبیب ﷺ سے لے لو حیات نو اب بھی
فروغِ وقت کہ ہے تیرا راہرو اب بھی
محیطِ عصر ترے عشق کی ہے ضو اب بھی
ترے وجود سے ہے کائنات حسن شعار
ترے جنوں میں عناصر ہیں مدح گو اب بھی
یہ کائنات تو کیا لامکاں بھی وجد میں ہے
نہالِ سدرہ پہ ہے کوئی نعت گو اب بھی
وہ نور، صلِّ علیٰ، ساعتِ دعائے حرا
جبینِ آخرِ شب پر ہے جس کی ضو اب بھی
صبا کے ہاتھ میں بوئے گلِ مدینہ ہے
صبا کے ہاتھ سے خیرات مانگ لو اب بھی
صبا مدینے سے آئی ہے روشنی لے کر
چراغِ دل کو صبا آشنا کرو اب بھی
حضور ﷺ آپ کی امت کے کارواں کی خیر
کہ راہزن ہیں نہاں بن کے راہرو اب بھی
فصیلِ شہر پہ لکھاّ ہے گرچہ کل کا عذاب
درِ نجات کھُلا ہے ستمگرو اب بھی
نویدِ حسن مقدر ہے خفتہ بختوں کو
حضور ﷺ بانٹ رہے ہیں کرم، چلو اب بھی
اک امتی کہ ندامت میں مر گیا ہے حضور ﷺ
کرم کی بھیک ملے، التفات ہو اب بھی
ضیاعِ عمر کے گو مرتکب ہوئے ہو عزیزؔ
درِ حبیب ﷺ سے لے لو حیات نو اب بھی
انہیں ﷺ کے در پہ گرو جس طرح سے ہو اب بھی
کہ ایک سانس کی فرصت ہے دوستو اب بھی
ہوائے نعت ہے گل رنگ موسموں کی نقیب
درِ سخن پہ کھڑی ہے بہارِ نو اب بھی
یہ نعت خالقِ لوح و قلم کی سنت ہے
کتابِ عشق کی آیات کو پڑھو اب بھی
ردائے اسم محمد ﷺ سے چھو کے چلتی ہے
ًنسیمِ خلد مدینہ ہے مست رو اب بھی
حضور ﷺ قطرے کو دریا کی وسعتیں دیں گے
گدائے کوچۂ رحمت، صدا کرو اب بھی
یہ تیرگی تو پہن لی ہے پے بہ پے مَیں نے
حریمِ نور سے کچھ چاندنی کرو اب بھی
یہ روشنی سی جو باقی ہے کاسۂ سر میں
کچھ اس طرح ہو کہ صرفِ کتاب ہو اب بھی
گرا ہوں قعرِ مذلت میں ، کور دیدہ تھا
نگاہِ عفو عطا ہو غلام کو اب بھی
نڈھال کر گیا طوفان رنگ و بو مجھ کو
اے شاہِ فقر! تنفس اجال دو اب بھی
غم رضائے نبی ﷺ کی تھی چودھویں کل رات
ہجومِ شوق ہے پلکوں پہ محوِ ضو اب بھی
عزیزؔ ٹوٹنے والا ہے اب حصارِ بدن
وجود وقفِ درِ مصطفیٰ ﷺ کرو اب بھی