2013ء کا انتخابی منظر نامہ- ارض دعا
تیرگی میں رات بھر لکھی گئی ہیں تختیاں
گونگی، بہری ہوگئی ہیں بستیوں کی بستیاں
کیا غضب ہے شامِ غم کے بعد بھی اہلِ وطن
منتخب فرما رہے ہیں رات کی تاریکیاں
چل رہی ہے ہر محلّے میں کرپشن کی ہوا
بند رکھو، بند گلیوں میں گھروں کی کھڑیاں
کیا تماشہ ہورہا ہے ارضِ پاکستان پر
آمروں نے اوڑھ لیں جمہوریت کی دھجیاں
اہلِ شر کچرا ذخیرہ کررہے ہیں ان دنوں
عقل دانش کی ڈبو دیں گے یقیناً کشتیاں
خدمتِ خلقِ خدا میں رات دن مصروف ہیں
یہ الیکشن کے صنم سب پھول کی ہیں پتیاں
ان کے دستر خوان پر مرغِ مسلّم کے طباق
شربتِ فولاد ہے اور قلفیوں پر قلفیاں
کارکن اندر سے کتنے ہیں منظم، صاحبو!
بعد جلسے کے اٹھا لیتے ہیں سر پر کرسیاں
غنڈہ گردی کے ستارے آج کل گردش میں ہیں
خوف سے سہمی ہوئی ہیں پھول جیسی بچیاں
میرا اندازہ غلط ہو اے خدائے مہرباں
ہر طرف رقصاں ہیں گہری شام کی پرچھائیاں
ڈول پیٹے جارہے ہیں بے تحاشا رات دن
اک اکھاڑے میں ہزاروں ہورہی ہیں کُشتیاں
ہم نے اپنی ہر روایت کا اڑایا ہے مذاق
ناشتے میں ہو رہی ہیں آج کل افطاریاں
ووٹروں سے اس قدر عشق و محبت، الاماں
کچی آبادی میں شب بھر گھومتی ہیں گاڑیاں
قریۂ عشقِ محمدؐ پر کرم کی بارشیں
لوٹ جائے یا خدا شامِ غریباں کا دھواں
یا خدا! ان کی طلب کی حوصلہ مندی کے پھول
لیڈرانِ محترم کی اس قدر بے تابیاں
یا خدا! رخصت کرپشن کی یہ شامِ الوداع
ہر قدم پر عام لوگوں کو ملیں آسانیاں
میرے ہمسائے کا جنریٹر مغّنی ہے ریاضؔ
گاتا رہتا ہے مسلسل دادرے اور ٹھمریاں
ایک بھی شاہیں نہیں نیلی فضاؤں میں ریاضؔ
دندناتے پھر رہی ہیں کرگسوں کی ٹولیاں