سیلاب نامہ- ارض دعا
کتنے گہرے ہیں سمندر بادلوں میں ان دنوں
آسماں بھیگا ہوا ہے بارشوں میں ان دنوں
سر پٹختی موجِ آبِ سر د ہے بپھری ہوئی
کیا قیامت سی ہے برپا بستیوں میں اِن دنوں
ان گنت جیسے جزیرے بن گئے ہیں دیس میں
رقص جاری ہے قضا کا وادیوں میں ان دنوں
ڈوبتی فصلوں نے رو رو کر یہ ممتا سے کہا
بھوک اگ آئی ہے خالی برتنوں میں ان دنوں
کیا غضب ہے ہل چلانے تھے کسانوں نے مگر
کشتیاں چلتی ہیں ان کی کھیتیوں میں ان دنوں
ریت کے ٹیلوں سے لے کر ریت کی دیوار تک
پھیلتا جاتا ہے پانی دائروں میں ان دنوں
یا سزا یہ مجرمانہ غفلتوں کی ہے ملی
یا ستارا ہے ہمارا گردشوں میں ان دنوں
چند شہروں میں ابھی سیلِ رواں پہنچا نہیں
چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کوفیوں میں ان دنوں
دل کسی صورت مرے قابو میں آتا ہی نہیں
کیسی طغیانی ہے دل کی دھڑکنوں میں ان دنوں
چادرِ آبِ خنک اک آئینہ سا بن گئی
اک نئی حیرت ہے شامل حیرتوں میں ان دنوں
بادو باراں کی دعائیں اس قدر مانگی گئیں
بام و در ڈوبے ہوئے ہیں پانیوں میں ان دنوں
یا خدا توفیق دے تعمیرِ پاکستان کی
اک نیا سا ولولہ ہے حوصلوں میں ان دنوں
عافیت کا سائباں ان کے سروں پر یا خدا
تیرے بندے مر رہے ہیں آفتوں میں ان دنوں
پانیوں میں بہہ گئی کالی سیاہی کی دوات
تیرتی ہیں تختیاں بھی مدرسوں میں اِن دنوں
بوڑھے، بچے، عورتیں اور گٹھڑیوں پہ گٹھڑیاں
گھر کے گھر رکھے ہوئے ہیں کشتیوں میں اِن دنوں
تتلیوں کے پر تلاشیں اب کتابوں میں ریاض!
ایک بھی جگنو نہیں ہے جھاڑیوں میں ان دنوں